Maktaba Wahhabi

34 - 54
ہیں کہ: ((یَقُوْلُ ابْنُ آدَمَ مَالِیْ مَا لِیْ وَہَلْ لَکَ یَا ابن آدَمَ مِنْ مَالِکٍ اِلَّا مَا اَکَلْتَ فَاَفْنَیْتَ اَوْ لَبِسْتَ فَاَبْلَیْتَ اَوْ تَصَدَّقْتَ فَاَمْضَیْتَ۔)) (مسلم:۷۴۲۰) کہ آدم کا بیٹا کہتا رہتا ہے کہ یہ میرا مال ہے یہ میرا مال ہے حالانکہ اے ابن آدم(انسان)تیرے مال میں سے تجھ کو کچھ نہیں ملتا مگر صرف اتنا کہ جو تو نے کھایا اور خراب کیا پہنا اور پھاڑ ڈالا یا خیرات کیا اور آخرت کے لیے ذخیرہ کیا بس دنیا کے مال کی یہی حقیقت ہے کہ یا تو اس کو انسان نے زبان کا چٹخارہ اور پیٹ کا لقمہ بنایا اور پھر غلاظت کی شکل میں اس کو مٹی میں ملایا یا اس کو تن کی زیبائش و آرائش کا سبب ٹھہرایا اور ایک روز اس کو پرانا کرکے تن سے جدا کیا یا پھر اللہ کی راہ میں اس کو لٹایا اور یوں اس کو ذخیرہ آخرت بنا کر آگے چلایا۔اب یہی آخری مال آخرت تک جاتا ہے اور مالک سے پہلے مالک حقیقی تک پہنچتا ہے راستہ کو نہیں منزل کو بناتا ہے ایک جگہ اور بھی صاف ارشاد ہے اور اس میں چار مال بتائے ہیں فرمان گرامی ہے: ((یَقُوْلُ الْعَبْدُ مَالِیْ مَالِیْ اِنَّمَا لَہٗ مِنْ مَّالِہٖ ثَلٰثٌ مَا اَکَلَ فَاَفْنٰی اَوْلَبِسَ فَاَبْلٰی اَوْ اَعْطٰی فَاقْتَنٰی وَمَا سِوٰی ذَلِکَ فَہُوَ ذَاہِبٌ وَتَارِکُہٗ لِلنَّاسِ۔))(مسلم:۷۴۲۲) کہ بندہ کہتا رہتا ہے کہ یہ میرا مال ہے یہ میرا مال ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس کے مال میں سے صرف تین قسم کے مال اس کے ہیں ایک وہ جو اُس نے کھایا اور ختم کیا دوسرا وہ جو اُس نے پھنا اور پھاڑا تیسرا وہ جو اُس نے نے خدا کی راہ میں دیا اور آخرت کے لیے ذخیرہ کیا۔ان تینوں قسم کے مالوں کے علاوہ جو کچھ ہے وہ سب یہ لوگوں کے لیے چھوڑ کر جانے والا ہے یہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کے مال کی تین قسمیں بتائیں۔چوتھی قسم کو غیروں کا مال بتایا مگر اے انسان تیرا مال درحقیقت وہ بھی نہیں جو کھایا اور پہنا کیونکہ وہ مال جو گھنٹوں اور دونوں میں تیرا ساتھ چھوڑے فنا کے نذر ہو عدم کے سپرد ہو اس کا لطف وقتی اور عارضی ہو یا
Flag Counter