Maktaba Wahhabi

78 - 92
٭ امام ابوداؤد نے اس کو غیر ثقہ کا لقب دیا ہے اور ابن حبان فرماتے ہیں : ((یروی عن الثقات المعضلات ویدعی شیوخا لم یرھم)) ’’معتبر راویوں سے معضل روایات لاتا ہے اور ایسے شیوخ سے روایت کا دعویٰ کرتا ہے جن کو اس نے دیکھا تک نہیں۔‘‘ او ر ابو نعیم فرماتے ہیں : ((حدیث بالمناکیر لا شی ئ)) ’’عمر بن ہارون منکر حدیثیں بیان کرتا تھا اور یہ کوئی چیز نہیں۔‘‘ اور ابن سعد اور ابراہیم بن موسیٰ فرماتے ہیں: ((الناس ترکوا حدیثہ۔)) ’’لوگوں نے اس کی حدیث کو ترک کیا ہوا ہے۔‘‘ اور امام احمد فرماتے ہیں کہ: ’’میں اس سے روایت نہیں کروں گا‘‘…اور ابن مہدی فرماتے ہیں کہ ’’میرے نزدیک اس کی کوئی قیمت ہی نہیں‘‘…اور حافظ ذہبی نے اس کی روایت کو منکر روایات میں شامل کیا ہے اور منکر روایت اس کو کہتے ہیں کہ جس کا راوی باوجود ضعیف اور مجروح ہونے کے ثقات اور معتبر راویوں کے خلاف روایت لائے۔ امام ابن جوزی (العلل المتناہیۃ2/197) میںیوں رقمطراز ہیں: ((ھٰذا الحدیث لایثبت عن رسول اللّٰہ)) ’’یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔‘‘ بخاری ومسلم کی تمام صحیح روایات اور اس حدیث کا مکمل طورپر منکر اور ضعیف ثابت ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم داڑھی کو معاف کیا کرتے تھے اور بالکل تعرض نہیں کرتے تھے اور صحابہ کو بھی یہی حکم دیا تھا۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ حکم تو اعْفُوا (معاف کرنے)کا دیں اور خود لمبائی و چوڑائی سے کاٹیں؟پھر یہ حدیث جو کہ امام ترمذی نے عمر بن ہارون بلخی سے نقل کی ہے اس کا ضعیف ہونا بلکہ بعض محدثین کے
Flag Counter