Maktaba Wahhabi

56 - 83
ہے ، وہاں جا کر شرعی طور پر اپنے اعتراف ریکارڈ کراؤ۔ اور حدود کے قیام کا مطالبہ کرو۔ پھر تمھارے معاملہ پر غور کیا جائے گا۔۔۔ اس بیچارے نے جب یہ دیکھا کہ وہ یہ سب کام سر انجام نہیں دے سکتا تو توبہ سے ہی منحرف ہو گیا اور اپنی سابقہ حالت پر لوٹ گیا۔ اور اس اہم معاملہ سے متعلق فرصت کو غنیمت جانئے۔ میں تو یہ کہوں گا کہ: مسلمانو ! دین کے احکام کی معرفت ایک امانت ہے اور انہیں صحیح ماخذوں سے طلب کرنا بھی امانت ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:-فَسۡـَٔلُوٓاْ أَهۡلَ ٱلذِّكۡرِ إِن كُنتُمۡ لَا تَعۡلَمُونَ (٤٣( اگر تم خود نہیں‌ جانتے تو پھر اہل علم سے پوچھو (سورۃ النحل) نیز فرمایا:-[ اَلرَّحْمٰنُ فَسْـَٔــلْ بِهٖ خَبِيْرًا 59؀] وہ بڑا مہربان ہے اس کے متعلق کسی باخبر سے پوچھو (سورۃ الفرقان) گویا ہر واعظ یہ صلاحیت نہیں رکھتا کہ اس سے فتوٰی پوچھا جائے نہ ہی ہر امام مسجد یا ہر مؤذن یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ ان سے لوگوں کے جھگڑوں کے بارے میں شرعی احکام کئے جائیں اور نہ ہی فتاوی نقل کرنے والا ہر ادیب یا قصہ گو یہ صلاحیت رکھتا ہے ۔نیز مسلمان سے یہ بھی بازپرس ہو گی کہ اس نے کس سے فتوی لیا تھا اور یہ مسئلہ تعبدی ہے (یعنی جس میں انسانی عقل کو دخل نہ ہو) چنانچہ
Flag Counter