جوکہ ابوالنضرکی کنیت ہے زیادہ مشہورہیں ان کے متعلق تقریب میں لکھا ہے کہ ثقہ ثبت اس کےبعدمحمدبن راشدجوشامی نہیں اوروہ صدوق ہیں قالہ فی التقریب)اوروہ یزیدبن یعفرسےروایت کرتے ہیں اس کے متعلق حافظ صاحب تعجیل المنفقہ برجال الاربعہ میں فرماتے ہیں کہ:
((قال الدارقطني يعتبربه.))
یعنی امام دارقطنی فرماتے ہیں کہ یہ راوی معتبرہے۔
((وذكره ابن حبان في الثقات.))
اورابن حبان نے اس روای کو اپنے(الثقات)میں ذکرکیا ہے ، پھر آگے حافظ صاحب فرماتے ہیں کہ:
((وقال الذهبي في الميزان ليس بحجة.))
اورحافظ ذہبی میزان الاعتدال میں فرماتے ہیں کہ یہ راوی حجت نہیں ہے۔ ‘‘
بندہ راقم الحروف کہتا ہے کہ حافظ ذہبی کا یہ فرماناکہ ’’یہ راوی حجۃنہیں ہے۔‘‘اس راوی کوثقاہت سے نہیں گراتاکیونکہ یہ جرح غیرمفسرہے حافظ ذہبی صاحب نے اس جرح کا سبب بیان نہیں کیا حالانکہ اس کی توثیق امام دارقطنی جیسے محقق فن اورمعتدل سےموجودہے اورخودذہبی صاحب نے میزان میں تصریح کی ہے کہ امام نسائی کے بعد دارقطنی جیساامام فن اورکوئی نہیں گزرااورپھرامام دارقطنی اس توثیق میں منفردبھی نہیں کیونکہ ابن حبان نے بھی ان کی توثیق کی ہے اس لیے اس کو اپنے (الثقات)میں ذکرکیا ہے۔
اوریہ بات اصول حدیث میں طے ہوچکی ہے کہ تعدیل پر جرح صرف وہ مقدم ہوتی ہےجومفسرہو۔ لہٰذا امام دارقطنی جیسےناقدجیدکے مقابلہ میں حافظ ذہبی کی یہ جرح غیرمفسرغیرمعتبرہے۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی مسلم نہیں کہ یہ الفاظ
‘’يس بحجة’‘جرح پر قطعی دلالت کررہے ہیں کیونکہ حجت یہ ثقہ ، ثبت وغیرہماکے الفاظ سےبہت اونچاہے اس لیے حجۃ ہونے کی نفی سے ثقاھت کی نفی لازم نہیں آتی۔
اب حافظ ذہبی کا قول بھی ان دواماموں کے قول کے متعارض نہیں رہاکیونکہ حافظ ذہبی
|