میںبِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِکاذکرنہیں۔ اب اگرانصاف مطلوب ہے تواس روایت کوترجیح ہونی چاہئے گواس میں بھی تدلیس ابن جریج ہے لیکن یہ روایت اس سندسے اس صحیح حدیث حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا والی سے متفق ہوجاتی ہےاوردوسری احادیث جن میں عدم جہربسملہ کی تصریح ہے ان سے بھی متفق ہوجاتی ہے۔ لہٰذا یہی راجح ہونی چاہئے اگرآپ ابن جریج کی تدلیس کی وجہ سے اس روایت کو قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوں توپھربتائیے پہلی روایت کےقبول کرنے پر اصرارکیوں؟اس میں بھی توابن جریج کی تدلیس ہے اوراس پر طرہ یہ کہ وہ دوسری احادیث صحیح کے بھی قطعی طورپرمخالف ہے۔
بہرکیف یہ روایت سنداًضعیف ہے لہٰذا اس کو معرض استدلال میں پیش کرنے اوراس کومذکورہ صحیح حدیث کے معارض بنانے کی کوئی اہل علم بالحدیث ہرگزجرات نہیں کرسکتاالایہ کہ تجاہل عارفانہ کرے یا بے جاضد پرمصرہو۔ان دلائل واضحہ اورصحیحہ سے روزروشن کی طرح ظاہر ہوگیا کہ نمازمیں اللہ کے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مستمرہ اورخلفاءراشدین مہدیین ثلاثہ رضی اللہ عنہم کی سنت مستمرہ یہی تھی کہ وہ نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم جہراًنہیں پڑھاکرتے تھے۔
یہ دلائل صرف ایک صحابی انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نہیں بلکہ ان کے علاوہ عبداللہ بن مغفل،جبیربن مطعم،ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اورام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہیں اورسب کی سب مرفوع اورصحیح ہیں لہٰذا ان احادیث صحیحہ سے اعراض کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت صحیحہ اورمستمرہ کو ترک کرکے علی الدوام بسملہ جہرسےپڑھنااہل حدیث جماعت کو قطعاًزیب نہیں دیتا۔
لیکن یہ بحث نامکمل رہے گی جب تک کہ فائلین بجہراًلبسملۃ کے دلائل کاجائزہ نہ لیاجائے۔اس لیے اب ان کے دلائل کا ذکرکیا جاتا ہے اوران کاانصاف وتحقیق سے جائزہ پیش کیا جاتا ہے اجمالایہ گزارش ہے کہ مخالفین جودلائل احادیث سے پیش کرتے ہیں ان میں سے جومسئلہ زیربحث پر صریح دلالت کرتی ہیں ان میں سے ایک حدیث بھی سندا صحیح نہیں ہے
|