حَوْلَ قَبْرِیْ قَدْرَ مَا تُنْحَرُ جَزُوْرٌ وَ یُقْسَمُ لَحْمُہَا حَتّٰی اَسْتَاْنِسَ بِکُمْ ، وَ اَنْظُرَ مَا ذَا اُرَاجِعُ بِہٖ رُسُلَ رَبِّیْ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ [1] حضرت ابن شُماسہ مہری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم حضرت عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ کی موت کے وقت ان کے پاس گئے ووہ دیر تک روتے رہے پھر اپنا منہ دیوار کی طرف کر لیا ان کے بیٹوں نے کہا ’’اباجان ! کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو فلاں فلاں بشارتیں نہیں دیں۔‘‘ تب حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اپنا چہرہ سامنے کیا اور کہا ’’ہم لوگ (یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ) کلمہ شہادت … لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِ … کا اقرار سب سے افضل باتوں میں شمار کرتے تھے میرے اوپر تین حالتیں گزری ہیں ۔ پہلی حالت وہ جب میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی کو برا نہیں سمجھتا تھا اور میری خواہش تھی کہ میں آپ پر قابو پاؤں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردوں، اگر میں اسی حالت میں مرجاتا تو جہنمیوں میں سے ہوتا۔ اس کے بعد دوسری حالت وہ تھی جب اللہ نے میرے دل میں اسلام کی محبت ڈال دی اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی اپنا ہاتھ بڑھائیے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ آگے کیا تو میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’عمرو رضی اللہ عنہ ! کیا بات ہے ؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’میں شرط کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کون سی شرط؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’میرے گناہوں کی مغفرت کی شرط‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’اے عمرو رضی اللہ عنہ ! کیا تو نہیں جانتا کہ اسلام قبول کرنا گزشتہ سارے گناہوں کو معاف کردیتا ہے ، ہجرت کرنا گزشتہ سارے گناہوں کو معاف کردیتی ہے اور حج کرنا گزشتہ سارے گناہوں کو معاف کردیتا ہے۔ تب مجھے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنی زیادہ محبت تھی کہ اتنی زیادہ کسی دوسرے سے نہیں تھی اور میری نگاہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی زیادہ شان تھی جو اور کسی کی نہیں تھی۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جلال اور رعب کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آنکھ بھر کرنہیں دیکھا۔ اگر میں اسی حا لت میں فوت ہوجاتا تو امید تھی کہ جنتی ہوتا لیکن اس کے بعدہم بعض (دنیا داری کے ) کاموں میں پھنس گئے اور اب میں نہیں جانتا کہ اس تیسری حالت میں میرا انجام کیا ہے؟ لہٰذا جب میں مرجاؤں تو میرے جنازے کے ساتھ کوئی رونے چلانے والی عورت نہ ہو، نہ ہی (کوئی) آگ لے کر چلے اور جب تم مجھے دفن کرو تو اچھی طرح قبر پر مٹی ڈال دینا اور میری قبر کے گرد اتنی |