تبصرہ: طوافِ افاضہ حج کا رکن اعظم ہے۔ اس کے بغیر حج کو کیسے درست قرار دیا جاسکتا ہے؟ مزید برآں کسی عالم نے یہ بات نہیں کہی۔
۳: مخصوص ایام کے آغاز سے پیشتر طہارت کے دنوں میں قبل ا زوقت طوافِ افاضہ کرلے۔
تبصرہ: یہ بات امت کے کسی عالم سے ثابت نہیں۔ علاوہ ازیں یہ تو ایسے ہی ہے، کہ نو ذوالحجہ سے پہلے کسی دن [وقوفِ عرفات] کرلیا جائے۔
۴: ایامِ حج میں حیض کے آنے کے امکان تک فریضہ حج ساقط رہے۔
تبصرہ: اس طرح عورتوں کی کثیر تعداد، بلکہ اکثریت سے فریضہ حج ساقط ہوجائے گا اور یہ باطل ہے، کیونکہ بعض شرائط اور کچھ ارکان کی تکمیل سے عاجز آنے کی صورت میں عبادات ساقط نہیں ہوتیں۔ ایسے حالات میں درست بات یہ ہے، کہ جس کی استطاعت ہو، وہ کرلیا جائے اور جو کچھ بساط سے باہر ہو، اسے چھوڑ دیا جائے، جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:
{فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ}[1]
[اپنی استطاعت کے بقدر اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو۔]
اور ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم :
’’إِذَا أَمَرْتُکُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوْا مِنْہُ مَا اسْتَطَعْتُمْ…الحدیث۔‘‘[2]
’’جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں، تو بقدر استطاعت اس کی تعمیل کرو… الحدیث۔
نماز کے متعلق بھی معاملہ یہی ہے، کہ اس کے جن ارکان اور شرائط کے پورا
|