واجب کریں، لیکن وہ ایسے نہیں کرتے۔ وہ صرف قربانی یا رمی سے پہلے سرمنڈانے پر دم لازم کرتے ہیں۔[1]
د: (لَا حَرَجَ) سے (گناہ کی نفی) مقصود ہونے کا احتمال:
علامہ طحاوی لکھتے ہیں: حدیث سے ظاہری طور پر یہی معلوم ہوتا ہے، کہ اعمال کے آگے پیچھے کرنے کی اجازت ہے، البتہ اس بات کا احتمال ہے، کہ (لَا حَرَجَ) سے مقصود تقدیم و تاخیر میں گناہ کی نفی ہو۔ اس طرح یہ حکم بھول یا جہالت کی بنا پر کرنے والے کے لیے ہوگا، لیکن عمداً ایسا کرنے والے پر فدیہ ہوگا۔
اس احتمال پر کیے گئے اعتراضات میں سے تین درج ذیل ہیں:
ا: فدیہ کے واجب کرنے کے لیے دلیل درکار ہے۔ اگر وہ واجب ہوتا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی وقت فرما دیتے، کیونکہ تب اس کے بیان کی ضرورت تھی اور بوقتِ ضرورت بیان میں تاخیر درست نہیں۔[2]
۲: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (لَا حَرَجَ) سے صرف گناہ کی نفی نہیں فرمائی، بلکہ ان اعمال کے عام ترتیب کے مطابق نہ ہونے کے باوجود ان کے شرعی طور پر معتبر ہونے کی خبر بھی دی ہے۔ اگر ایسے نہ ہوتا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے دوبارہ کرنے کا حکم دیتے، کیونکہ لاعلمی یا سہو سے حج کے احکام ختم نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر رمی اور قربانی لاعلمی یا سہواً چھوڑنے والا گناہ گار نہیں ہوتا، لیکن اس کا علم ہونے اور یاد آنے پر ان کا ادا کرنا واجب ہوتا ہے۔[3]
۳: امام طبری (لَا حَرَجَ) سے صرف گناہ کی نفی مراد لینے والوں پر اعتراض
|