بھی اسی کے قائل ہیں۔امام ترمذی نے اسے ہی اختیار کیا ہے۔ابن قدامہ نے المغنی میں اسے ہی راجح قرار دیا ہے اور علّامہ مبارکپوری نے تحفہ الاحوذی میں اسی کو مذہب ِمختار قرار دیتے ہوئے لکھا ہے: ﴿وَلَمْ اَجِدْحَدِیْثاً مَرْفُوْعاً صَحِیْحاً یَدُلُّ عَلیٰ ثُبُوْتِ نَقضِ الْوِتْرِ﴾[1] مجھے ایسی کوئی مرفوع وصحیح حدیث نہیں ملی جو وِتروں کو توڑ کر جفت بنانے کے ثبوت پر دلالت کرتی ہو۔ نقض ُالوِتر کے قائلین کو عدم ِنقض کے قائلین کی طرف سے متعدد جوابات دیئے گئے ہیں،جن میں سے ہی ایک یہ بھی ہے کہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وِتروں کے بعد دو رکعتیں پڑھنا ثابت ہے جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ نماز ِوِتر پڑھ چکنے کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کردو رکعتیں پڑھیں۔[2] امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ بیانِ جواز کیلئے پڑھی تھیں اور ایک یا چندمرتبہ ایسا کیا ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی پابندی نہیں کرتے تھے۔[3] دوسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ وِتر کو رات کی آخری نماز بنانے والے ارشاد سے وجوب ثابت نہیں ہوتا بلکہ استحباب ومذب کا پتہ چلتا ہے کیونکہ جب رات کی نماز(تہجد)ہی فرض و واجب نہیں تو اس حدیث سے وِتر کو آخری نماز بنانا واجب کیسے ثابت ہو سکتا ہے لہذا جو شخص رات کے آخری حصہ میں اٹھ جائے وہ دوبار وِتر پڑھے بغیر نوافل پڑھ سکتا ہے۔[4] قضاءِ وِتر: اب رہی یہ بات کہ اگر کسی نے نماز ِوِتر اس نیت سے چھوڑ دی کہ رات کے آخری حصہ میں تہجد پڑھوں گا اور آخر میں وِتر ادا کرلوں گا،مگر وہ اٹھ نہ سکا،وِتر قضاء ہوگئے،تو وہ کب پڑھے؟ |