امام اہل سنت احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ بھی قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانے کے قائل تھے۔ ( دیکھئے مسائل ابی داودص66، مسائل احمد واسحاق روایۃ اسحاق بن منصور الکوسج 1؍211ت 465،259ت3468)
خلاصہ : قنوت وتر میں دعا کی طرح ہاتھ اٹھائیں یا نہ اٹھائیں دونوں طرح جائز ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ حدیث انس رضی اللہ عنہ ودیگر دلائل کی رو سے قنوت میں ہاتھ نہ اٹھائے جائیں۔ واللّٰه اعلم (الحدیث:14)
نماز وتر میں دعائے قنوت والی ایک روایت
سوال : کیا وتروں میں قنوت رکوع سے پہلے پڑھنے کی روایت جو کہ جزء رفع الیدین للبخاری میں ہے ،صحیح ہے؟ (ایک سائل)
الجواب: جزء رفع الیدین للبخاری (ص 173،174ص99) والی روایت ليث عن عبدالرحمن بن الاسود عن ابيه عن عبداللّٰه (يعني ابن مسعود) کی سند سے مروی ہے۔اس میں مذکور ہے کہ ثم يرفع يديه قبل الركعة پھر ( عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ) اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے (اور) رکوع سے پہلے قنوت پڑھتے تھے ۔
اس کی سند لیث بن ابی سلیم کے ضعف ، تدلیس اور اختلاط کی وجہ سے ضعیف ہے۔ لیث بن ابی سلیم پر جرح کے لیے تقریب التہذیب، تہذیب التہذیب،الاغتباط فی معرفۃ من رمی بالاختلاط کتابوں کا مطالعہ کریں جیسا کہ استاذ محترم مولانا ابو محمد بدیع الدین الراشدی رحمہ اللہ نے اشارہ کیا ہے۔اس علت قادحہ کے باوجود محمد یوسف بنوری دیوبندی اور نیموی صاحب آثارالسنن (ص169ح 635) دونوں نے اس اثر کو صحیح قراردیا ہے۔! غالبا وہ لیث بن ابی سلیم کو غلطی سے لیث بن سعد سمجھ بیٹھے ہیں۔
عبدالرحمن بن الاسود بن یزید (98ھ یا 99ھ) میں فوت ہوئے تھے۔ ( دیکھئے تہذیب الکمال ج 1ص 108)
جبکہ لیث بن سعد 93ھ میں پیدا ہوئے ۔ چار یا پانچ سال کے بچے کا کوفہ آکر
|