Maktaba Wahhabi

48 - 93
البتہ آخر رات کو نہ اٹھ سکنے کے خدشہ سے محفوظ رہنے کیلئے ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے سے پہلے وِتر پڑھ لینے کی وصیت فرمائی ہے جیسا کہ صحیح بخاری ومسلم وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے: ﴿اَوْصَانِیْ خَلِیْلِیْ بِثَلاَثٍ:صِیَامُ ثَلاَثِ اَیاَّمٍ مِنْ کُلِّ شَھْرٍ﴾ میرے خلیل(نبی صلی اللہ علیہ وسلم)نے مجھے خاص طور پر تین باتوں کی وصیت فرمائی:ہر مہینے کے تین روزے رکھنا۔ یادرہے کہ یہ تین روزے چاند کی تیرہ،چودہ اور پندرہ تاریخ کے روزے ہیں جنہیں’’ایامِ بِیض‘‘ کے روزے کہا گیا ہے اور دوسری وصیت ہے: وَرَکْعَتَیْ الضُّحیٰ صلوۃ الضحیٰ یعنی چاشت کی دو رکعتیں۔ اور تیسری وصیت تھی: ﴿وَأَنْ اُوْ تِرَ قَبْلَ اَنْ اَنَامَ﴾[1] اوریہ کہ سونے سے پہلے میں وِتر پڑھ لیا کروں۔ نقضِ وِتر: اگر کوئی شخص رات کے آخری حصّہ میں نہ اٹھ سکنے کے خدشہ سے وِتر پڑھ کر سوئے،مگر تہجد کے وقت پھر سے جاگ جائے۔وہ اب کیا کرے ؟کیا دو دو کر کے صرف نوافل ہی پڑھتا رہے یا پھرایک رکعت پڑھ کر رات کے پڑھے ہوئے وِتر کو توڑ کر شفع یا جفت بنالے اور آخر میں پھر سے وِتر پڑھے؟ اس سلسلہ میں صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم میں دونوں طرف لوگ تھے۔حضرت عمر،عثمان،علی،ابن مسعود،ابن عمر،ابو ہریرہ،اسامہ اور سعد بن مالک رضی اﷲ عنہم ا س بات کے قائل ہیں کہ وِترِاول کو توڑ لے۔امام اسحاق بن راہویہ کابھی یہی مسلک ہے۔اس مسلک والوں کے پاس اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ پہلے وِتر توڑنے سے واقعی ٹوٹ جائیں گے؟ اور ایک عرصہ کے بعد کی پڑھی ہوئی ایک رکعت پہلے کے پڑھے ہوئے وِتروں کے ساتھ جاکر جڑ جائے گی؟ سیدھی سی بات ہے کہ اگر اٹھ ہی جائے تو پھر دو دو کر کے رکعتیں پڑھتا رہے اور اسکا ثبوت بھی خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وِتروں کے بعد دو رکعتیں پڑھی ہیں،جیسا کہ آگے آرہا ہے۔
Flag Counter