Maktaba Wahhabi

43 - 93
اہلِ علم اس پہلو میں بھی دورائے رکھتے ہیں کہ آیا یہ دونوں واجب ہیں یاسنت ِموکّدہ؟ بعض نے فجر کی سنتوں کو اور نماز ِوِتر کو واجب قرار دیا ہے،جبکہ جمہور ائمہ،علماء و فقہاء اور اہلِ علم ان دونوں کو سنتِ مؤکّدہ کہتے ہیں۔اگرچہ یہ دیگر مؤکّدہ سنتوں سے بھی زیادہ مؤکّدہ ‘ افضل اور اہم ہیں جیسا کہ ان کے فضائل میں وارد ہونے والے ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے پتہ چلتا ہے۔ نماز ِوِتر کا حکم،سنت ِمؤکّدہ قائلینِ وجوب اوران کے دلائل: حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ وجوب کے قائل ہیں اور ان کا استدلال ان احادیث سے ہے جو وِتر کے فضائل کے ضمن میں ذکر ہوئی ہیں مثلاً ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک نماز کے ساتھ تمہاری مدد فرمائی ہے جو کہ نماز ِوِتر ہے،اس حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ وہ نماز تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔[1] اس حدیث میں فضیلت تو مذکور ہے مگر یہ وجوب کا پتہ نہیں دیتی اور اگر ایسی فضیلت کو وجوب کی دلیل بنا یا جاسکتا ہو تو پھر فجر کی سنتوں کی ایک طرح سے اس سے بھی زیادہ فضیلت بیان ہوئی ہے۔کیونکہ بخاری ومسلم کی صحیح حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں﴿خَیْرُٗمِّنَ الدُّنْیَاْ وَمَا فِیْہَا﴾قرار دیا ہے اور ظاہر ہے﴿دُنْیَا وَمَافِیْہَا﴾سے بہتر چیز،سرخ اونٹوں سے بہتر چیز سے افضل ہو گی،کیونکہ سرخ اونٹ تو دنیا کا جزء ہیں اور جزء کی کل کے مقابلہ میں جو حیثیت ہے وہ واضح ہے اور اتنی بڑی فضیلت ہونے کے باوجود سنتوں کو زیادہ سے زیادہ مؤکّدہ ہی کہا گیا ہے نہ کہ وا جِب اِسی طرح ایک حدیث میں ہے: ﴿اَلْوِتْرُ وَاجِبُٗ عَلیٰ کُلِّ مُسْلِمٍ﴾ وِتر ہر مسلمان پر واجب ہے۔[2] اس حدیث کی سند میں جابر جعفی ہے جو جمہور علماء کے نزدیک ضعیف ہے،اور اگر حدیث صحیح ہوتی(یابالفرض اسے صحیح مان بھی لیا جائے)تو پھر ایک اعتراض واشکال وارد ہوتا ہے کہ غسلِ جمعہ کے بارے میں بھی صحیح بخاری ومسلم اور ابو داؤ دونسائی وغیرہ میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
Flag Counter