Maktaba Wahhabi

46 - 93
ابو داؤد،نسائی،ابن ماجہ،دارمی اور مؤطأ امام مالک ومسنداحمد میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اﷲ عنہ کی حدیث میں واضح صراحت موجود ہے کہ وِترِ واجب نہیں بلکہ تطوُّع وسنت مؤکّدہ ہیں۔[1] ٭اس مقام پر یہ بات ذہن نشین رہے کہ احناف کے نزدیک فرض اور واجب دو الگ الگ چیزیں ہیں،واجب کا درجہ فرضوں سے کم اور سنتِ مؤکّدہ سے زیادہ ہے،جبکہ دوسروں کے یہاں فرض وواجب ہم معنیٰ لفظ ہیں اور انکے مابین کوئی فرق نہیں۔اور مذکورہ فرق کو ثابت کرنا محتاجِ دلیل ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر نے یہ کہہ کر اشاد ہ کیا ہے: ﴿وَھَذَایَتَوَقَّفُ عَلیٰ اَنَّ ابْنَ عُمَرَ کَانَ یُفَرِّقُ بَیْنَ الْفَرْضِ وَالْوَاجِبِ﴾[2] یہ معاملہ اس بات پر موقوف ہے کہ کیا حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما فرض اور واجب کے مابین فرق کیا کرتے تھے؟ نماز ِوِتر کا وقت: نماز ِوِتر کا وقت کونسا ہے ؟اس سلسلہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد ارشادات ہیں،جن سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے وقت میں کافی وسعت ہے،جو نمازِ عشاء سے طلوعِ فجر تک ہے جیسا کہ ابوداؤد،ترمذی،ابن ماجہ،دارقطنی،بیہقی اور مستدرک حاکم وغیرہ میں ہے کہ بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ِوِتر کی فضیلت بیان فرمائی اور اس کے وقت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ﴿فَصَلُّوْھَا فِیْمَا بَیْنَ الْعِشَائِ إِلیٰ طُلُوْعِ الْفَجْرِ﴾[3] اسے نمازِ عشاء اور طلوع فجر کے مابین پڑھو۔ اس نماز کے وقت میں وسعت کا اندازہ صحیح بخاری ومسلم اور ترمذی وغیرہ میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہاکی اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے،جس میں وہ حضرت مسروق کے پوچھنے پر بتاتی ہیں: ﴿مِنْ کُلِّ اللَّیْلِ قَدْ اَوْتَرَ اَوَّلِہٖ وَاَوْسَطِہٖ وَآخِرِہٖ﴾ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے ہر حصہ میں نماز ِوِتر ادا فرمائی،ابتدائی حصہ میں بھی،وسطِ شب میں بھی اور رات کے آخری حصہ میں بھی۔
Flag Counter