Maktaba Wahhabi

47 - 93
اور آخر میں وہ فرماتی ہیں: ﴿فَانْتَہیٰ وِتْرُہٗ حِیْنَ مَاتَ فِي السَّحَرِ﴾[1] اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن دنوں وفات پائی اس وقت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم سحر ی کے موقع پر و ِتر کو پڑھنا اختیار فرما چکے تھے۔ نماز ِوِتر کے وقت ِاداء کی انتہا ء کا ذکر کرتے ہوئے صحیح مسلم،ترمذی،نسائی اور ابن ماجہ وغیرہ میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ﴿اَوْتِرُ وْاَقْبلَ اَنْ تُصْبِحُوْا﴾[2] صبح ہونے سے پہلے پہلے نماز ِوِتر پڑھو لو۔ افضل تو یہی ہے کہ وِتر کی نماز رات کے آخری حصّہ میں طلوعِ فجر کے قریب پڑھی جائے لیکن جس شخص کو اندیشہ ہو کہ وہ رات کے آخری حصہ میں نہیں اٹھ سکے گا۔اس کے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ نمازِ عشاء کے بعد رات کے شروع حصہ میں ہی وِتر پڑھ لے،کیونکہ صحیح مسلم،ترمذی،ابن ماجہ اور مسند احمد میں ارشاد ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ﴿مَنْ خَافَ اَلَّایَقُوْمَ آخِرَ اللَّیْلَ فَلْیُو تِرْاَوَّلَہٗ وَمَنْ طَمَعَ اَنْ یَّقُوْمَ آخَرَہٗ فَلْیُوْ تِرْ آخِرَہٗ﴾ تم میں سے جس شخص کو یہ اندیشہ ہو کہ وہ رات کے آخری حصہ میں نہیں جاگ سکے گا تو اسے چاہیے کہ وہ رات کے پہلے حصہ میں ہی وِتر پڑھ لے اورجسے آخر رات کے قیام کا شوق وطمع ہو،اسے چاہیئے کہ وہ رات کے آخری حصہ میں وِتر پڑھے۔ آگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے آخری حصہ یعنی سحری کے قیام وتہجد کی فضیلت وخصوصیت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿فَاِنَّ صَلَوٰۃَ اللَّیْلِ مَشْھُوْدَۃٌ وَذَالِکَ اَفْضَلُ﴾[3] بیشک رات کے آخری حصہ کی نماز میں فرشتے آتے ہیں اور یہی افضل ہے
Flag Counter