Maktaba Wahhabi

44 - 93
﴿غُسْلُ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ وَاجِبٌ عَلٰی کُلِّ مُحْتَلِمٍ﴾[1] یوم جمعہ کا غسل ہر بالغ پر واجب ہے۔ جبکہ جمہور علما ء سلف وخلف اور تمام فقہا ء کے نزدیک غسلِ جمعہ واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔[2] واجب کے واضح لفظ کو استحباب پر محمول کرنے کے قرینے بھی موجود ہیں جنہیں جمہور کی طرف سے امام شوکانی نے نیل الأوطار میں بالتفصیل نقل کیا ہے۔[3] وہی قرینے وِتر کے بارے میں وارد ہونے والے لفظِ واجب کو سنت کی طرف پھیرنے کے بھی موجود ہیں۔ بعینہ﴿اَلْوِتْرِحَقٌّ﴾والی حدیث کامعاملہ ہے کہ اسے بھی وِتر کے واجب ہونے کی دلیل کہا گیا ہے جبکہ غسلِ جمعہ کے بارے میں بھی یہ لفظ صحیح بخاری ومسلم میں موجود ہے،ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ﴿حَقٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ اَنْ یَّغْتَسِلَ فِيْ کُلِّ سَبْعَۃِ اَیَّامٍ یَوْماً﴾[4] ہر مسلمان پر سات دنوں میں ایک دن(یومِ جمعہ)کا غسل حق ہے۔ امام بغوی رحمہ اللہ نے شرح السنہ میں حدیث ’’الوِترحق‘‘نقل کر کے حق کے معنی کی وضاحت کی ہے کہ عام علماء کے نزدیک اس سے مراد انگیخت اور ترغیب ہے۔[5] اسی طرح ہی حدیث میں بعض دیگر روایات ہیں جو بظاہر تو وِتر کے وجوب کا پتہ دیتی ہیں مگر ہر کسی کے ساتھ قرینۂ صارفہ عن الوجوب موجود ہونے کی وجہ سے باقی تینوں آئمہ اور جمہور علماء وفقہاء نے نماز ِوِتر کو سنتِ مؤکّدہ ہی قرار دیا ہے اور جمہور کے دلائل کی قوت کے پیش نظر ہی خو د امام صاحب کے دونوں شاگر دانِ خاص امام ابو یوسف اور امام محمد بھی وِتر کے سنت ِمؤکّدہ ہونے کے ہی قائل ہیں جیسا فتح الباری شرح صحیح بخاری میں شیخ ابو حامد غزالی کے حوالہ سے حافظ ابن حجر عسقلانی نے نقل کیا ہے۔[6] صاحبین کا یہی مسلک خود احناف کی اپنی معتبر کتاب ہدایہ میں بھی منقول ہے۔[7]
Flag Counter