Maktaba Wahhabi

309 - 373
(5)۔بنو ہاشم(یعنی آل عباس،آل علی،آل جعفر،آل عقیل،آل حارث اور آل ابولہب) کو صدقہ وزکاۃ دیناجائز نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "إن الصدقة لا تنبغي لآل محمد، إنما هي أوساخ الناس" بے شک صدقہ(زکاۃ) آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جائز نہیں یہ لوگوں(کے مال) کا میل ہے۔"[1] (1)۔کسی ایسی محتاج عورت کو زکاۃ دینادرست نہیں جو مال دار خاوند کے نکاح میں ہو اور وہ اسے نان ونفقہ دیتاہو۔اسی طرح کسی ایسے فقیر کو بھی مال زکاۃ نہ دیا جائے جس کا قریبی سرپرست مال دار ہو اوروہ اس پر خرچ کرتا ہو۔یہ لوگ اخراجات میسر ہونے کی وجہ سے مال زکاۃ کے حقدار نہیں ہیں۔[2] (2)۔اگر کسی شخص کے اعزہ و اقارب کا نان ونفقہ اس کے ذمے ہوتو اسے ان کو مال زکاۃ دینا جائز نہیں ورنہ سمجھا جائے گا کہ یہ شخص اپنا اصل بچانا چاہتاہے جو اس کے لائق نہیں،البتہ اگر اس پر کسی کے اخراجات لازم نہیں بلکہ وہ ہمدردی کی وجہ سے ادا کررہاہے تو وہ اس پر مال ِ زکاۃ خرچ کرسکتا ہے۔صحیح بخاری میں ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے ان یتیم بھتیجوں کے بارے میں سوال کیا جو اس کے زیر پرورش ہیں کہ کیا انھیں زکاۃ کا مال دے دے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:"ہاں" یعنی دے دو۔[3] (3)۔اپنے باپ،دادا یااپنی اولاد اور اولاد کی اولاد کو زکاۃ دینا جائز نہیں۔ (4)۔اپنی بیوی کو زکاۃ دیناجائز نہیں کیونکہ اس کا نان ونفقہ خاوند کے ذمے ہے۔اگر کوئی بیوی کو زکاۃ دے گا تو سمجھا جائےگا کہ وہ اپنا مال بچارہا ہے۔ (5)۔ہر مسلمان کو چاہیے کہ زکاۃ دینے سے پہلے دیکھ لے کہ وہ شخص واقعی مستحق ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو شخص آئے انھوں نے مال ِ زکاۃ طلب کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے وجود پر نگاہ دوڑائی تو انھیں باہمت اور طاقتور محسوس کیاتوفرمایا: "إِنْ شِئْتُمَا أَعْطَيْتُكُمَا، وَلا حَظَّ فِيهَا لِغَنِيٍّ وَلا لِقَوِيٍّ مُكْتَسِبٍ" "اگر تم چاہو تو میں تمھیں مال ِزکاۃ دے دیتا ہوں لیکن یادرکھو!مالدار اور کمانے والے طاقتورشخص کا اس میں کوئی حصہ نہیں۔"[4]
Flag Counter