Maktaba Wahhabi

190 - 373
"وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا" "اور وہ لوگ جو یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار !تو ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیز گاروں کا پیشوا بنا۔[1] درحقیقت نماز کی امامت دین کی امامت ہے، بالخصوص جب کوئی امام مسجد میں حاضرین کو وعظ و نصیحت کرنے میں اپنی قوتیں کھپاتا ہو تو اس کا شمار ان خوش نصیب لوگوں میں ہو گا جو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والے ہیں جو اپنے دامنوں میں اعمال صالحہ اور اقوال طیبہ کے ذریعے سے نیکیوں کے حسین پھول سمیٹ رہے ہیں۔ ارشاد ہے: "وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللّٰهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ" "اور اس سے زیادہ اچھی بات والا کون ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں یقیناً مسلمانوں میں سے ہوں۔"[2] چنانچہ امامت کا عہدہ قبول کرنے سے وہی شخص اعراض وگریز کرتا ہے جو بے نصیب ہے۔"ولاحول ولاقوة الا باللّٰهِ" جو شخص امامت کا مستحق نہیں نماز کی امامت بہت بڑی دینی ذمہ داری ہے۔ جس طرح امامت کی اہلیت کے لیے مذکورہ تمام اوصاف سے متصف ہونا ضروری ہے، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ امام ان عیوب اور نقائص سے مبرا ہو جو اس کے منصب کے لائق نہیں اور اس کے شایان شان نہیں۔ فاسق شخص کو نماز کی امامت کا منصب دینا قطعاً جائز نہیں۔ واضح رہے فاسق وہ شخص ہے جو شرک کے سوا دیگر کبیرہ گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے دائرہ تقوی واستقامت سے نکل جائے۔ فسق دو قسم کا ہوتا ہے: فسق عملی اور فسق اعتقادی ۔ فسق عملی زنا، چوری کرنے، شراب پینے وغیرہ کبیرہ گناہوں کے ارتکاب کا نام ہے جب کہ فسق اعتقادی عقائد میں خرابی سے لاحق ہوتا ہے جیسا کہ رافضہ معتزلہ اور جہمیہ کے عقائد میں بگاڑ پیدا ہوا اور وہ فسق اعتقادی کے مرض کا شکار ہو گئے۔الغرض کسی فاسق شخص پر نماز کی امامت کی ذمہ داری ڈالنا قطعاًدرست نہیں کیونکہ وہ تو اس لائق بھی نہیں کہ اس کی کوئی خبر قبول کی جائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا
Flag Counter