جب امام حالت رکوع میں ہو اور اسے محسوس ہو کہ کوئی شخص جماعت میں داخل ہو رہا ہے تو مستحب یہ ہے کہ امام رکوع کو قدرے لمبا کردے تاکہ وہ رکوع میں شامل ہو جائے اور رکعت مل جائے یہ مقتدی کے ساتھ تعاون کی ایک صورت ہے، چنانچہ سیدنا ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: " أَنَّ النَّبيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُومُ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى مِنْ صَلَاةِ الظُّهْرِ حَتَّى لَا يُسْمَعَ وَقْعُ قَدَمٍ" "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی پہلی رکعت میں تادیر کھڑے رہتے حتی کہ جماعت میں داخل ہونے والوں کے قدموں کی آہٹ ختم ہوجاتی۔[1] لیکن یہ تب ہے جب مقتدیوں کی طبیعتوں پر انتظار گراں نہ گزرے اور زیادہ لمبا نہ ہو ورنہ انھیں نظر انداز کر دے کیونکہ جماعت میں شامل ہونے والوں کا احترام و لحاظ شامل نہ ہونے والوں سے بڑھ کر ہے۔ الغرض! امام کے لیے ضروری ہے کہ وہ مقتدیوں کے حوال و طبائع کا خیال رکھے، مکمل اور صحیح نماز پرھائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحتوں اور امر کی اطاعت کرے ،اس میں سب کی خیر اور بھلائی ہے۔ بعض ائمہ مساجد امامت کی ذمہ داریوں کے سلسلہ میں کوتاہی برتتے ہیں، اکثر مسجد سے غیر حاضر رہتے ہیں ،یاحاضری میں تاخیر کرتے ہیں جس کی وجہ سے نمازیوں کو پریشانی ہوتی ہے، ان میں نفرت اور مخالفت جنم لیتی ہے حتیٰ کہ امام کی شخصیت سست اور غیر ذمہ دار لوگوں کے لیے ایک دلیل بن جاتی ہے۔ ایسے شخص کو اس غلطی سے روکیےاور سمجھائیے تاکہ وہ اپنے کام کو باقاعدگی اور بہتر انداز سے سرانجام دے مسجد کی امامت میں بے قاعدگی چھوڑ دے یا پھر راہ راست پر نہ آنے کی صورت میں اسے عہدہ امامت سے معزول کر دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان اعمال کی توفیق دے جو اسے محبوب اور پسند ہوں۔آمین! معذور افراد کی نماز کا بیان معذور افرادسے یہاں مراد بیمار ،مسافر اور وہ شخص ہے جسے دشمن کا خوف لاحق ہو جو غیرمعذور کی طرح صحیح طور |