Maktaba Wahhabi

308 - 373
(2)۔مذکورہ آٹھ مصارف میں سے کسی ایک مصرف میں زکاۃ کاسارا مال دیاجاسکتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "وَإِن تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ" "اور اگر تم اسے پوشیدہ ،پوشیدہ مسکینوں کو دے دوتو یہ تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے۔"[1] علاوہ ازیں سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن روانہ کیا تو فرمایا: "أَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللّٰهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ" "ان کے علم میں لاؤ کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے مالوں میں زکاۃ فرض کی ہے جو ان کے مال دار لوگوں سے وصول کی جائے گی،اوران کے نادارلوگوں پر خرچ کی جائےگی۔"[2] گزشتہ آیت وروایت میں صرف ایک صنف(فقراء) کا ذکر ہوا ہے۔اس بنا پر ایک صنف کو سارا مال زکاۃ دینا جائز ہے۔ (3)۔زکاۃ دینے والا اپنا سارا مال ِزکاۃ ایک شخص کو بھی دے سکتا ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنوزریق کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنا مال زکاۃ سلمہ بن صخر رضی اللہ عنہ کو دے دیں۔[3] نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا قبیصہ رضی اللہ عنہ کو کہا تھا: "أَقِمْ حَتَّى تَأْتِيَنَا الصَّدَقَةُ فَنَأْمُرَ لَكَ بِهَا" "ہمارے پاس (مدینہ میں) ٹھہرو،ہمارے پاس صدقہ وزکاۃ کامال آئے گا تو ہم تجھے دلوادیں گے۔"[4] ان دونوں روایتوں سے واضح ہوا کہ مال ِزکاۃ آٹھ مصارف میں سے کسی ایک مصرف پر خرچ کیا جاسکتا ہے۔ (4)۔محتاج اقرباء ،یعنی ان نادار رشتے داروں کو مال زکاۃ دینا مستحب ہے جن کے نان ونفقہ کی ذمہ داری مال ِ زکاۃ دینے والے پر نہ ہو۔اس میں زیادہ قریبی زیادہ حق رکھتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "صَدَقَتُكَ ۔۔۔۔۔۔۔۔ وَعَلَى ذِي الْقُرْبَى الرَّحِمِ ثِنْتَانِ صَدَقَةٌ وَصِلَةٌ" "تیرا رشتے دار کو صدقہ دینا،صدقہ ہے اور صلہ رحمی بھی ہے۔"[5]
Flag Counter