Maktaba Wahhabi

146 - 373
اور فرمایا: "مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ " "جس نے ایمان اور طلب ثواب کی نیت کے ساتھ رمضان المبارک کا قیام کیا ،اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔"[1] نماز تراویح سنت ثابتہ ہے، لہٰذا کسی مسلمان کے لائق نہیں کہ وہ اسے چھوڑدے۔ نماز تراویح کی رکعات کی تعداد کی تعیین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، لہٰذا اس امر میں وسعت ہے۔"[2] شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: نماز تراویح ادا کرنے والا چاہے تو بیس رکعات ادا کرے ،جیسا کہ امام احمد اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب مشہور ہے یا وہ چھتیس رکعات ادا کرے جیسا کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک ہے۔اور اگر وہ چاہے تو گیارہ یا تیرہ رکعات پڑھ لے جس قدر بھی پڑھے درست ہے۔ قیام چھوٹا ہو تو رکعات کی تعداد بڑھالی جائے اور اگررکعات کی تعداد کم ہو تو قیام لمبا کر لیا جائے۔"[3] سیدنا امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جب حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو لوگوں کا امام مقرر کیا تو انھوں نے بیس رکعات پڑھائیں ۔[4] صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں کوئی کم رکعات پڑھتا اور کوئی زیادہ ۔الغرض شارع علیہ السلام سے محدود یا متعین تعداد کے بارے میں کوئی نص وارد نہیں۔ اکثر ائمہ مساجد جو نماز تراویح پڑھاتے ہیں وہ توجہ سے نماز نہیں پڑھاتے، ان کے رکوع و سجود میں اطمینان اور سکون نہیں ہوتا ،حالانکہ طمانینت رکن نماز ہے، نماز کا مطلوب حضور قلب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہونا ہے اور اس قرآن مجید کے پڑھے جانے والے حصے پر غور کرنا اور نصیحت حاصل کرنا ہے۔ لیکن یہ چیزیں ناپسندحد تک جلد بازی کرنے سے حاصل نہیں ہوتیں ۔ایسی دس رکعات جن میں قیام لمبا ہوا ور اطمینان و سکون ہو ان بیس رکعات سے کہیں بہتر ہیں جو انتہائی جلد بازی سے ادا ہوں کیونکہ نماز کا لب لباب اور روح، اللہ تعالیٰ کے حضور دل کو
Flag Counter