بادشاہ بولا کہ آج کے روز سے تو ہمارے نزدیک مکین وامین ہے یعنی قرب ومنزلت والا امانت دار ہے ۔ (مواہب الرحمن : ص : ٨: ج : ٤) " [1]
بادشاہ کے ہاں سیدنا یوسف علیہ السلام کامکین اور امین ہونا
"جب بادشاہ کو حضرت یوسف علیہ الصلوة والسلام کے علم اور آپ کی امانت کا حال معلوم ہو اور وہ آپ علیہ الصلوة والسلام کے حسن ِ صبر ، حسن ِ ادب ، قیدخانے والوں کے ساتھ احسان ، مشقتوں اور تکلیفوں پر ثابت قدمی اور استقلال رکھنے پر مطلع ہوا تو اس کے دل میں آپ علیہ الصلوة والسلام کے بارے میں بہت ہی عظمت پیدا ہوئی اور اس نے کہا : حضرت یوسف علیہ الصلوة والسلام کو میرے پاس لے آؤ تاکہ میں انہیں اپنے لیے منتخب کرلوں ۔
بائبل میں کہا گیا ہے کہ فرعون نے یوسف ( علیہ السلام) سے کہا (سو تو میرے گھر کا مختار ہوگا اور میری ساری رعایا تیرے حکم پر چلے گی، فقط تخت کا مالک ہونے کے سبب سے میں بزرگ تر ہوں گا… دیکھ میں تجھے سارے ملک مصر کا حاکم بناتا ہوں … اور تیرے حکم کے بغیر کوئی آدمی اس سارے ملک مصر میں اپنا ہاتھ یا پائوں ہلانے نہ پائے گا۔ (پیدائش :۔ ٤١، ٣٩، ٤٥) اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ آپ کو مکین اور امین کہہ کر جس بات کی
پیشکش کی گئی تھی اس کا مفہوم کیا تھا۔" [2]
آزمائشوں کے بعدعنایات کے دور کا آغاز :
سو یہاں سے حضرت یوسف (علیہ السلام) پر آزمائشوں کے بعدعنایات کے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ بادشاہ نے ان کو اپنے لیے چن لیا کہ بادشاہوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ ہر عمدہ اور نفیس چیز کو اپنے
|