Maktaba Wahhabi

352 - 871
[الأنفال: ۳۸] [ان لوگوں سے کہہ دے جنھوں نے کفر کیا،اگر وہ باز آ جائیں تو جو کچھ گزر چکا انھیں بخش دیا جائے گا] اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: ((اَلْإِسْلاَ مُ یَھْدِمُ مَا قَبْلَہٗ)) [1] [اسلام پہلے گناہ مٹا دیتا ہے] دلیل ہے،جسے مسلم رحمہ اللہ وغیرہ نے روایت کیا ہے۔ابن جریر طبری اپنی تفسیر میں بعض اہلِ علم سے حکایت کرتے ہیں کہ یہ آیت یعنی آیتِ محاربہ عرنیوں کے بارے میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے منسوخ ہے اور ان حدود پر معاملہ موقوف ہوگیا ہے۔محمد بن سیرین رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ عرنیوں کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فعل نزولِ حدود سے پہلے تھا اور اہلِ علم کی ایک جماعت اس کی قائل ہے۔دوسری جماعت کا مذہب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عرنیوں کے ساتھ یہ فعل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مثلہ کی نہی سے منسوخ ہے،[2] لیکن اس قول کے قائل سے ناسخ کی تاخیر کو بیان کرنے کی دلیل مطلوب ہے۔درست یہ ہے کہ یہ آیت مشرکین اور غیر مشرکین کو،جو آیت کے مضمون کا ارتکاب کریں،عام ہے اور خصوصِ سبب کا اعتبار نہیں،بلکہ عمومِ لفظ کا اعتبار ہے۔امام قرطبی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں فرمایا ہے کہ اہلِ علم کے درمیان اس میں اختلاف نہیں ہے کہ یہ حکم اہلِ اسلام محاربین پر مترتب ہوتا ہے،اگرچہ وہ مرتدین یا یہود کے بارے میں اترا ہے۔[3] چوتھی آیت: ﴿فَاِنْ جَآئُ وْکَ فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْھُمْ﴾ [المائدہ: ۴۲] [پھر اگر وہ تیرے پاس آئیں تو ان کے درمیان فیصلہ کر،یا ان سے منہ پھیر لے] کہتے ہیں کہ یہ آیت اﷲ کے اس ارشاد: ﴿وَ اَنِ احْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ﴾ [المائدہ: ۴۹] [اور یہ کہ ان کے درمیان اس کے ساتھ فیصلہ کر جو اللہ نے نازل کیا ہے] سے منسوخ ہے،اسی طرف مجاہد اور سعید بن المسیب رحمہما اللہ گئے ہیں۔ایک دوسری جماعت نے کہا ہے کہ یہ آیت محکم ہے اور یہ حسن بصری،شعبی اور نخعی رحمہ اللہ علیہم کا مختار مذہب ہے۔’’الفوزالکبیر‘‘ کی عبارت یہ ہے کہ آیت کا معنی یوں ہے کہ اگر آپ فیصلہ کرنا اختیار کریں تو ﴿مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ﴾ کے موافق فیصلہ
Flag Counter