Maktaba Wahhabi

43 - 106
ہے کہ اجتہاد، مجتہد اور فقیہ ہی کی طرف سے ہوتا ہے۔گویا کہ امام غزالی رحمہ اللہ کی تعریف کو مختصر کیا گیاہے ۔ الشیخ محمد الخضری بک نے بھی امام غزالی ہی کی تعریف کو بیان کیا ہے۔ [1] ڈاکٹر عبد الکریم زیدان رحمہ اللہ (متوفی2014م)نے امام غزالی ہی کی تعریف میں’طریق استنباط‘ کے لفظ کا اضافہ کیا ہے جو اس تعریف کا ارتقاء ہے۔ [2] شیخ عبد اللہ بن صالح الفوزان حفظہ اللہ نے امام غزالی کی تعریف میں’ طریق استنباط‘ کے ساتھ’دلائل شرعیہ‘کی قید کا بھی اضافہ کیا ہے جو اس تعریف کا مزید بیان ہے۔ [3]شیخ عبد اللہ بن یوسف الجدیع حفظہ اللہ نے شیخ صالح الفوزان ہی کی تعریف نقل کی ہے۔ [4] ساتویں تعریف ابن رشد الحفید رحمہ اللہ (متوفی 595ھ)نے اپنی تعریف اجتہادمیں اجتہاد کے مناہج اور اسالیب کو نمایاں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: "أما الاجتهاد فهو بذل المجتهد وسعه في الطلب بالآلات التي تشترط فیه"[5] یعنی اجتہاد سے مراد کسی مجتہد کا کسی شرعی حکم کی تلاش میں ان آلات(طرق وذرائع)کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کو کھپا دینا‘ جو کہ اجتہادمیں بطور شرط مقرر کیے گئے ہیں۔ آٹھویں تعریف فخر الدین الرازی رحمہ اللہ (متوفی 606ھ)لکھتے ہیں: " فهو استفراغ الوسع في النظر فیما لا یلحقه فیه لوم مع استفراغ الوسع فیه" [6] یعنی کسی چیز میں غور وفکر کرتے ہوئے اپنی صلاحیت کو اس درجے کھپا دینا کہ اس بارے میں کوئی ملامت باقی نہ رہے ، اجتہاد کہلاتا ہے۔سراج الدین ارموی رحمہ اللہ (متوفی 682ھ)نے بھی اسی تعریف کو اختیار کیا ہے ۔[7] شہاب الدین القرافی رحمہ اللہ (متوفی 684ھ)نے بھی تقریباًیہی تعریف بیان کی ہے ۔ [8]
Flag Counter