دیا ہے۔[1] ڈاکٹر خالد بن علی المشیقح حفظہ اللہ نے اسی تعریف میں ’جہد‘ کے لفظ کو ’الوسع‘ سے بدل دیاہے۔ [2] استاذ علی حسب اللہ حفظہ اللہ نے اس تعریف میں ’فقیہ‘ کے لفظ کا اضافہ کیا ہے اور لفظ’استفراغ‘کی بھی مزید وضاحت کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں: "وفي اصطلاح الأصولیین بذل الفقیه جهده في استنباط حکم شرعی من دلیله على وجه یحس فیه العجز عن المزید" [3] یعنی أصولیین()کی اصطلاح میں کسی شرعی حکم کو اس کی دلیل سے مستنبط کرنے کے لیے کسی فقیہ کا اپنی طاقت کو اس طرح کھپا دینا کہ اس سے زائد کوشش کرنے سے اس کا نفس عاجز ہو۔‘‘ شیخ عبد الوھاب خلاف نے استاذ علی حسب اللہ رحمہ اللہ (متوفی1375ھ)کی اس تعریف کو نقل کرتے ہوئے لفظ’ دلائل‘ کی مزید وضاحت کر دی ہے کہ وہ’ تفصیلی دلائل ‘ ہوں۔ [4] استاذ مصطفی الزرقا نے بھی ایسی ہی تعریف بیان کی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں: "الاجتهاد: هو عملیة استنباط الأحکام الشرعیة من أدلتها التفصیلیة في الشریعة" [5] یعنی اجتہاد شرعی احکام کو شریعت میں موجود تفصیلی(جزئی)دلائل سے اخذ کرنے کے عمل کا نام ہے ۔ علامہ محمد عبد الغنی الباجقنی نے استاذمصطفی الزرقا کی اس تعریف کو بیان کرتے ہوئے’ فقیہ‘ کی شرط بھی بڑھا دی ہے۔[6] عبد الوھاب عبد السلام طویلۃ حفظہ اللہ نے بھی ’فقیہ‘ کی قید کے ساتھ اسی تعریف کو اختیار کیا ہے۔[7] اسی تعریف کو الفاظ کی کچھ تقدیم وتاخیر کے ساتھ شیخ ولید بن راشد السعیدان حفظہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔[8] شیخ محمد بن حسین بن حسن الجیزانی حفظہ اللہ نے بھی اسی تعریف کو بیان کیاہے لیکن فقیہ کی قید نہیں لگائی ہے۔ [9] |