اور اگر بیماری ایسی ہو جس سے شفایابی کی امید نہ ہو تو ایسے مرض کو فدیہ دیناہو گا اور فدیہ ایک دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔ پھر علمائے کرام اس میں اختلاف کرتےہ یں کہ اگر مرض تنگ دست ہوتو کیاخوشحالی ہونے کے بعد اسے فدیہ دینا ہوگایا ساقط ہوجائےگا ؟ اگر مرض سے شفایابی اورعلاج کی امید ہو تو مریض شفایابی کا انتظار کرے اور شفایابی کے بعد روزوں کی قضا میں روزے رکھے اور اس پر فدیہ نہیں ہوگا، اورایسے مریض کے لیے روزے چھوڑ کر صرف فدیہ دینا جائز نہیں۔امام نووی رحمہ اللہ کہتےہیں : ’’ایسا مریض جسے بیماری سے شفایابی کی امید ہو، اس کے لیے فوری طور پر روزے رکھنا لازم نہیں، بلکہ اس پر قضا لازم ہو گی، یہ اس صورت میں ہے جب اسے روزہ رکھنے میں واضح مشقت ہو۔‘‘[1] اور ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتےہیں: ’’جس مریض کو مریض سے شفایابی کی امید نہ ہو،وہ روزہ نہ رکھے بلکہ ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کرے... یہ اس شخص پر محمول ہوگا جس کے لیے قضا میں روزے رکھنے کی امید نہ ہو، لیکن اگراسے قضا میں رروزے رکھ سکنے کی امید ہو تو روزہ رکھے کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے :’’تم میں سے جو کوئی بھی مریض ہو یا مسافر تو وہ دوسرے ایام میں گنتی پوری کرے۔‘‘ فدیہ تواس وقت دیاجائے گا جب قضا میں روزے رکھنے کی امید نہ رہے۔ [2] ہمیں تو یہی معلوم اور ظاہر ہوتا ہے کہ باقی علم اللہ کے پاس ہے۔ آپ کےخاوند کو جوبیماری اور مرض لاحق ہوا تھا وہ عارضی تھا اور اس سے شفایابی کی امید تھی، اور اللہ تعالیٰ نے شفا نصیب کر دی، اس لیے اس پر ان روزوں کی قضا میں روزے رکھنا واجب ہیں، جتنے روزے نہیں رکھے تھے، انہیں ایام کے بدلے مسکینوں کو کھانا دینا کافی نہیں ہوگا۔ لیکن اگر وہ قضا کے روزے رکھنے کےساتھ بطور فدیہ مسکین کوکھانا بھی کھلائے توبہتر ہے اورپھر آپ نےبیان کیاہے کہ اب مالی حالت بھی الحمد للہ بہتر ہے۔ |