مخالفین کی خرابیوں پر تنقید کی۔ان کے پاس آثار و اسانید کی کثرت ہو گئی اور وہ اس فن میں یوں مشہور ہوئے جسے دیگر ماہرین اپنی ایجادات اور مصنوعات سے مشہور ہوتے ہیں۔ پھر ہم نے ایسی قوم دیکھی جس نے ان آثار کو حفظ کرنے اور ان کی معرفت حاصل کرنے میں کم ہمتی دکھائی اور ان میں صحیح اور مشہور آثار و احادیث کی اتباع سے پہلو تہی برتی اور ان کے حاملین کی صحبت سے گریز کیا اور ان آثار پر ردّ وقدح کی اور ان کے حاملین پر طعن وتشنیع کی اور لوگوں کو ان کے حق سے بے اعتنائی برتنے کا مشغلہ اختیار کیا اور ان آثار اور ان کے حفاظ کےلیے بری مثالیں بیان کیں اور انہیں برے القاب سے بدنام کیا اور انہیں نواصب، مشبہہ، مجسّمہ اور حشویہ وغیرہ نام دیے۔ سو ہم نے روشن دلائل اور مضبوط شواہد کی بنا پر پہچان لیا کہ ان کو اس طرح کے نام دینے والے تمام فرقے ہی دراصل ان القاب کے مستحق ہیں۔''[1] میں نے بذاتِ خود مقلد حضرات کو اپنے کانوں سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ احادیث کے مجموعے پنساریوں کی دکانیں اور کباڑخانے ہیں جہاں سے ہر چیز مل سکتی ہے،جبکہ وہ مقلدین ایسے سفہا کی رکیک تاویلات کے بارے میں اس طرح کا ہذیان نہیں بولتے جو اپنے فقیہ کے غلط استدلال کو صحیح ثابت کرنے کے لیے قرآنِ کریم اور احادیث صحیحہ میں لفظی ومعنوی تحریف سے بھی نہیں رکتے۔حالانکہ اصحاب الرائے کی فقہ اصحاب الحدیث کی فقہ کے سامنے پرکاہ کی حیثیت نہیں رکھتی۔ ۶۔امام احمد بن حنبل بن سنان القطان آج سے صدیوں قبل کتنی سچی بات کہہ گئے ہیں: ((لَيْسَ فِي الدُّنْيَا مُبْتَدِعٌ إِلَّا وَهُوَ يُبْغِضُ أَهْلَ الْحَدِيثِ، وَإِذَا ابْتَدَعَ الرَّجُلُ نُزِعَ حَلَاوَةُ الْحَدِيثِ مِنْ قَلْبِهِ)) [2] ''دنیا میں کوئی ایسا بدعتی نہ ہو گا جو اہل حدیث سے بغض نہ رکھتا ہو اور جب کوئی آدمی بدعت شروع کر دیتا ہے تو اس کے دل سے حدیث کی حلاوت کھینچ لی جاتی ہے۔'' |