Maktaba Wahhabi

52 - 111
تھا تو آپ نے میری تحسین فرمائی تھی۔پھر حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس آدمی سے شراب کی بدبو پائی تو کہنےلگے کہ تم کتاب اللہ کی تکذیب کرتے ہو اور شراب پیتے ہو، بعد میں ابن مسعود نے اس پر حدّ لگائی۔[1] اس کا جواب یوں دیا گیا ہےکہ یہ استدلال ہی تسلیم شدہ نہیں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ اس آدمی نے شراب نوشی کا اعتراف کیاہو۔اس احتمال کی بنا پر یہ دلیل ساقط ہوجاتی ہے، اسی وجہ سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ اثر 'کتاب فضائل القرآن' میں ذکر کیا ہے اور قوتِ فہم و دقتِ استنباط کے باوجود امام بخاری رحمہ اللہ نے اس اثر کو کتاب الحدود میں ذکر نہیں کیا۔اسی طرح امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اسے فضائل قرآن سے متعلق احادیث کے ضمن میں ہی ذکر کیا ہے۔امام نووی رحمہ اللہ نے اس پر باب باندھا ہے: باب فضل استماع القرآن[2] ۴۔ظاہری قرائن کے ساتھ شراب نوشی کا حکم لگانے پر صحابہ کرام کا اتفاق ہے کیونکہ حضرت عمر او ر ابن مسعود کے مذکورہ فیصلوں پر صحابہ کرام میں سے کوئی مخالف نہیں ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ فتح الباری میں حضرت علی سے یہ روایت موجود ہے کہ اُنہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کے مجرد بدبو کی وجہ سے حدّ لگانےپر انکار کیا تھا۔[3] تیسرا قول : محض بدبو آنے سے حدّ واجب نہیں ہوتی، ہاں اگر اس کے ساتھ کوئی شہادت یا قرینہ مل جائے جو شبہات کی نفی کردے تو حد لازم ہوگی۔صحابہ کرام میں سے یہ موقف حضرت عمر، ابن زبیر کا ہے۔امام عطا، ابن قدامہ اور شیخ بکر ابوزید نےاسی موقف کو اختیار کیا ہے۔ راجح موقف تیسرا موقف راجح معلوم ہوتا ہے، متفرق دلائل اسی نظریہ کی تائید کرتے ہیں۔اس بنا
Flag Counter