علیحدگی میں ہونا حرام ہے۔ ''[1] لیڈی ڈاکٹر سے مرد کا علاج کرانا ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں کام کرنے والی بعض لیڈی ڈاکٹرز اور نرسیں، بغیر کسی خاص مجبوری کے مرد مریض کے علاج معالجے میں اندیشہ محسوس نہیں کرتیں اور بسا اوقات لیڈی ڈاکٹر براہِ راست مریض آدمی کے ستر والے حصے کو دیکھتی اور بار بار اسے چھونے میں جھجک محسوس نہیں کرتیں اور بسااوقات سرجری کے شعبہ میں زیر تربیت طالبات اور لیڈی ڈاکٹرز کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ کھڑے یا لیٹے ہوئے مردمریض کے شرم والے عضو کا چیک اَپ کریں، گویا کہ میڈیکل کے شعبے میں اس کے بغیر سپیشلائزیشن ہو ہی نہیں سکتی اور بہت سی نرسیں اور لیڈی ڈاکٹرز ایسا کرنا بھی نہیں چاہتیں ،لیکن وہ اس خوف سے ایسا کرنے پر مجبور ہوتی ہیں کہ مبادا اُنہیں پریکٹیکل کی سند نہ ملے حالانکہ ہمارے علم کے مطابق میڈیکل کے تعلیمی نصاب اور تقاضوں میں ایسی کوئی سختی نہیں کہ طالبات کو ایسا کرنے پر مجبور کیا جائے، خصوصاً ایسی صورت میں کہ وہ دین، اخلاق اور حیا کی وجہ سے ایسا کرنے میں حرج محسوس کرتی ہوں۔ اس بنا پر عین ممکن ہے کہ طالبات طب کے دیگر شعبہ جات میں داخلہ لے لیں جہاں ایسی صورتِ حال نہ ہو۔ اور بعض مرد لیڈی ڈاکٹر سے علاج کروانے سے روک بھی دیتے ہیں اور بعض نہیں روکتے کیونکہ وہ اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے یا وہ سمجھتے ہیں کہ جب لیڈی ڈاکٹر موجود ہے تو اس سے چیک اَپ کروانا جائز ہے اگرچہ ایمرجنسی کی صورت نہ بھی ہو۔ بعض ضعیف الایمان اور بے مروّت مریض بذاتِ خود نرس یا لیڈی ڈاکٹر سے چیک اَپ کروانےمیں لذت محسوس کرتے ہیں۔ اگر بالغ مریض مرد وں کے لئے نرس یا لیڈی ڈاکٹر سے چیک اَپ کروانا ممنوع قرار دے دیا جائے تو اُن کے لئے اور اُن کے بعد والے مرد مریضوں کے لیے معاملہ آسان ہوجائے گا اور ڈاکٹروں کی ایک بڑی تعداد کو ہر رورل ہیلتھ سنٹر اور شہری ہسپتالوں میں کھپایا جاسکے گا۔ لیکن یہاں تو معاملہ اور صورت حال اتنی بگڑ چکی ہے کہ نسوانی امراض کے علاج کے لئے بھی مرد ڈاکٹر ہسپتالوں میں گھومتے پھرتے اور زچگی جیسے معاملات میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ کیا یہ |