غرض سے مدینہ منورہ گئے تو وہاں کے عرب شیخ کی صاحب زادی سے اُن کا نکاح ہو گیا اورآپ وہاں مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہی درسِ حدیث دینے لگے اور ساتھ ہی ساتھ صحیح مسلم شریف کی کتابت کرنے لگے۔تقریباً ایک صدی تک محیط صحیح مسلم شریف کا وہ نسخہ جو نور محمد کتب خانہ کراچی سے طبع ہو تا رہا ہے، یہ انہی کی سعئ مشکورہ ہے۔رحمہم اللہ اجمعین اسی دوران ہندوستان تقسیم ہو گیا تو ان کی جگہ ان کے لائق فرزندانِ گرامی قدر حضرت مولانا محی الدین لکھوی اور مولانامعین الدین لکھوی رحمۃ اللہ علیہم نے لے لی اور اُن کی خدمات نے دعوتِ دین کے سلسلے کو بامِ عروج تک پہنچا دیا۔ بڑے برادرِ گرامی قدر نے زہد و تقویٰ اور عبادت و ریاضت کو شعار بنا لیا اور دنیاوی جاہ و حشمت اور طمطراق کوٹھوکر مار کر پنجاب کے قریہ قریہ اور کُو بکو، گوشہ گوشہ میں دعوتِ دین کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا اور چھوٹے برادر نے درس و تدریس کی سرپرستی کے ساتھ ’سیاست برائے دین‘ میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا اور اس میدان میں محض اپنی شرافت و صداقت، امانت و دیانت کی بدولت بڑے بڑے سیاست دانوں کو میدانِ سیاست میں چاروں شانے چت کر دیا اور دنیا کو درس دے دیا کہ سیاست محض کذب و دروغ اور دھوکہ فریب سے ہی نہیں بلکہ امانت اور صداقت وشرافت سے بھی ہو سکتی ہے لیکن علم و عمل اور ایمان و حکمت کا سورج (یعنی مولانا محی الدین لکھوی) تو ۱۹۹8ء میں غروب ہو گیا اور فہم و فراست، ذہانت و فطانت، علم و عمل اور حکمت و دانش کا چاند(مولانا معین الدین لکھوی) ۹/دسمبر۲۰۱۱ء کو زیر زمین چھپ گیا : شنیدم کہ در روز گار کُہن شدہ عنصری شاہ صاحب سُخن چو اورنگ از عنصری شد تہی بفردوسی آمد کلامہی چوفردوسی از دور فانی گذشت نظامی بملک سخن شاہ گشت نظامی چوجام اجل در کشید بسرچتر اشعار سعدی رسید چواورنگ سعدی فروشد زکار سخن برفرق خسر و نثار وزاں پس چونوبت بجامی رسید جہاں سخن راتمامی رسید مولانا معین الدین لکھوی رحمۃ اللہ علیہ جیسے علما کی مثال اس دنیا میں اُن ستاروں کی سی تھی جن کے ذریعے ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْر سے نکلنے کے لئے راستے نظر آتے ہیں اور اس طرح کے ستارے نظروں سے اوجھل ہوجائیں تو نجات کے راستوں کا ڈھونڈنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لئے تو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: (( فَضْلُ الْعَالِمَ عَلىٰ الْعَابِدِ کَفَضْلِ الْقَمَرِ لَیْلَةَ الْبَدْرِ عَلٰى سَائر الْکَوَاکِب)) [1] |