Maktaba Wahhabi

84 - 107
کے لئے بجلی گھروں کی طرح جنریٹر کام کرتے ہیں۔ اس کی فیکٹریوں میں لحمیات (پروٹین) تیار ہوتے ہیں۔ اس تیار شدہ سامان یعنی کیمیاوی اجزا کو جسم کے تمام حصوں میں پہنچانے کے لئے ایک مواصلاتی نظام بھی ہے جو خطرہ یا گزند پہنچنے پر اس کے سدِباب کے لئے دفاعی اقدامات کے حامل ہوتے ہیں۔ ان میں نازک خلیے بھی ہیں جن کی جسامت ملی میٹر10لاکھ ویں حصے کے برابر ہے۔ پہلے تحقیق ہوا تھا کہ 7 سال میں اوّل خلیے ختم ہو کر دوسرے خلیے پیدا ہو جاتے ہیں، اب معلوم ہوا ہے کہ ہر گیارہ مہینے بعد کھربوں خلیوں پر مشتمل یہ پورے کا پورا نظام بدل جاتا ہے۔ بات صرف خلیوں پر ہی ختم نہیں ہو جاتی۔ خود خلیوں کے اندر پورا نظامِ حیات ہے جسے سائنس نے پچھلے 35 سالوں میں ڈھونڈھ نکالا ہے اور جس کے نتیجہ میں جینیات Genetics کی ایک پوری نئی سائنس اُ بھر کر سامنے آگئی ہے۔ دادا، پردادا، نانا، پرنانا اور ماں باپ کے یہی ’جین‘ بچے میں منتقل ہوتے ہیں تو وہ کالا یا گورا ہوتا ہے، اس کی آنکھیں نیلی یا بھوری یا سیاہ ہوتی ہیں اور اُس کے بال کالے، بھورے یا سنہری ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ اثرات بچے تک اِس کے کئی پشتوں کے جین لاتے ہیں۔ ساری خصوصیات ان ہزار جین کے اندر پنہاں ہوتی ہے جو ایک خلیہ اپنے اندر چھپائے ہوتا ہے۔ ان جین سے پروٹین کی خصوصی قسم پیدا کرنے میں مدد بھی ملتی ہے جو جسم کے خصوصی افعال کیلئے ضروری ہے۔ جین اصل میں ایک عجیب و غریب کیمیاوی سالمے Molecules سے ترتیب پاتے ہیں جو کچھ اس شکل کے لمبے سالمے ہوتے ہیں جیسے دو کیچوے ایک دوسرے میں ستلی کے دھاگے کی طرح لپٹ گئے ہیں۔ ہر جانور، انسان یا پودے کی تمام ممکنات اس دھاگے کے اندر سمائی Coded ہوتی ہے۔ اس کیمیاوی سالمے کو DNA کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے جس کو زندگی کا دھاگا کہنا موزوں ہو گا۔ اس کے اربوں یونٹ ایک خلیے میں موجود ہوتے ہیں۔ DNA نہ صرف نسل اور جینیات کی کنجی ہے بلکہ یہی وہ قوت ہے جو خلیے اور جینیات دونوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ ہر فرد کی شخصیت کی پوری خصوصیات پہلے ہی سے DNA کی ٹیپ میں ریکارڈ ہوتی ہیں جس کی تفصیلات اگر تحریر میں لائی جائیں تو بڑے سائز کے ایک لاکھ
Flag Counter