Maktaba Wahhabi

42 - 95
’’تکبیرات کےاوقات (اور تکبیرات کون کہے) اس بارے میں کافی اختلاف ہے: 1.بعض علماء نے تکبیرات کا وقت نماز کے بعد مخصوص کیا۔ 2. کچھ علماء نےنوافل کے بجائےفرض نمازوں کے بعد کاوقت تکبیرات کے لیے خاص کیا ۔ 3. بعض علماء نے تکبیرات کو عورتوں کےبجائے مردوں کےساتھ خاص کیا ہے۔ 4. کچھ نے منفرد کے بجائے نماز باجماعت کی تخصیص کی ہے۔ 5. بعض نے قضا نماز کو چھوڑ کر ادانماز کی شرط عائد کی ہے۔ کچھ علماء نےمسافر کے سوامقیم کی قید لگائی ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مسئلہ کو اختیار کیا ہے کہ تکبیرات کہنا (تمام اوقات اور) تمام افراد (مرد ، عورت، مقیم و مسافر سبھی کے لیے) مشروع و جائز ہے اورترجمۃ الباب میں منقول آثار اس موقف کی تائید کرتے ہیں۔[1] حائضہ عورتیں بھی تکبیرات کہیں گی! عیدین میں حائضہ عورتوں کو بھی تلقین ہے کہ وہ تکبیرات کا اہتمام کریں۔ سیدہ عطیہ رحمہ اللہ بیان کرتی ہیں: کنا نؤمر أن نخرج یوم العید حتی نُخرج البکر من خدرها حتی نخرج الحیض فیکن خلف الناس فیکبرن بتکبیرهم ویدعون بدعائهم یرجون برکة ذلك الیوم وطهرته [2] ’’ہمیں عید کے دن (عیدگاہ میں) پہنچنے کا حکم دیاجاتاتھا۔ حتیٰ کہ (ہمیں حکم ہوتا کہ) ہم دو شیزہ کو اس کی خلوت گاہ سے اور حائضہ عورتوں کوبھی نکالیں اوروہ (حائضہ عورتیں) لوگوں کے پیچھے رہیں اوران کی تکبیرات کےساتھ تکبیرات کہیں۔ ان کی دعاؤں کےساتھ دعا کریں اوروہ اس دن کی برکت اورگناہوں سے پاکی کی امید رکھیں۔‘‘ البتہ واضح رہے کہ عورتوں کی آواز مردوں تک نہ پہنچے جیسا کہ ابن قدامہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: وینبغی لهن أن یخفضن أصواتهن حتی لا یسمعهن الرجال [3]
Flag Counter