بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ فکر و نظر پاکستان میں نفاذِ شریعت کے اہم مراحل ایک تاریخی مطالعہ اِن دنوں دستورِ پاکستان کی۱۸ ویں ترمیم کا چرچا ہے، قانونی تقاضے پورے کرکے اس کے مطابق دستور میں ترمیم کی جاچکی ہے، لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کے موجودہ ابتر حالات کا ایک پس منظر حکومت کے نفاذِ شریعت کے اقدامات سے اسلام پسند عوام کا اعتماد اُٹھ جانا بھی ہے، اور اس سمت ۱۸ ویں ترمیم میں سرے سے کوئی پیش قدمی نہیں کی گئی۔ اسی تناظر میں گذشتہ برس شمالی علاقہ جات میں نفاذِ شریعت محمدی کی بھرپور تحریک اُٹھی تھی جن کا واحد مطالبہ شرعی قوانین کا نفاذ تھا اور اس کے لئے اِس تحریک کے ذمہ داران امن وامان کی ہمہ نوعیتی ذمہ داری اُٹھانے کو تیار تھے۔اسی مقصد کے لئے ’اَمن مارچ‘ کے علاوہ چند روز شرعی عدالتوں کے قیام نے اہل سوات کو سکھ کا سانس لینا بھی نصیب کیا۔ فوری طورپر تو اُس تحریک کو امریکی دباؤ کے نتیجے میں دبا دیا گیا، لیکن مستقبل میں بھی جب نفاذِ شریعت کی کوئی تحریک چلے گی تواس کے لئے درست لائحۂ عمل کا تعین اشد ضروری ہوگا۔انہی مقاصد کے پیش نظر پاکستان کے دستور میں نفاذِ شریعت کی طرف موزوں پیش قدمی کے لئے ’محدث‘ کے حالیہ شمارے میں رہنما مراحل کو شائع کیا جارہا ہے جو حسب ِذیل ہیں : 1.پاکستان کے بطورِ اسلامی مملکت اَغراض ومقاصد کو سب سے پہلے ۱۹۴۹ء میں قراردادِ مقاصد کے ذریعے طے کیا گیا تھا۔ یہ قرار دادِ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خاں نے پیش کی تھی۔اس اساسی اور مرکزی دستاویز کو سب سے پہلے شائع کیا جارہا ہے۔ یاد رہے کہ یہ دستاویز۱۹۷۳ء کے متفقہ اور پہلے دستور میں بطورِ دیپاچہ وتمہید کے شامل کی گئی تھی، جسے بعد میں صدارتی حکم نمبر ۱۴( ۱۹۸۵ء) کی رو سے دستور کی دفعہ ۲/ الف کے تحت ۱۹۷۳ء کے دستور کا باقاعدہ اورمؤثر حصہ بنا دیا گیا۔ |