کے اساتذہ، تلامذہ، معاصرین اور سوانح نگار سب ان کے علمی کمالات کے مداح و معترف ہیں ۔ اسحٰق رحمہ اللہ بن راہویہ فرماتے ہیں کہ ’’ابو عبید رحمہ اللہ مجھ سے اور امام احمد رحمہ اللہ و امام شافعی رحمہ اللہ سے زیادہ صاحب ِعلم اور علم و ادب اور جامعیت و کمال میں ہم سب سے زیادہ ممتاز و فائق تھے ۔ ہم لوگ تو ان کے محتاج ہیں مگر وہ ہم سے مستغنی ہیں ۔‘ ‘ جبکہ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ وہ ہمارے شیخ اور ان بزرگوں میں تھے جن کی خیر و برکت میں برابر اضافہ ہوتا ہے۔ ‘‘[1] ابن کثیر رحمہ اللہ نے أحد أئمۃ الدنیا، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے الإمام المشہور، امام ذہبی رحمہ اللہ نے العلامۃ العالم اور الإمام البحر جیسے اَلقاب کے ساتھ ان کا تذکرہ کیا ہے ۔[2] فقہی مسلک ابو عبید رحمہ اللہ خود فقیہ اور مجتہد تھے اور اپنے دور کے مذاہب ِفقہ میں کسی مذہب کے مقلد نہ تھے ۔ البتہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مقابلے میں امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کے مذہب سے زیادہ قریب تھے ۔ چنانچہ اپنی کتابوں میں ان بزرگوں کے مسالک کے شواہد، احادیث و روایات سے ان کی تطبیق اور نحوی و لغوی استدلال سے ان کو قوی ثابت کیا ہے جس سے ان مذاہب کی جانب ان کے رجحان کا پتہ چلتا ہے ۔[3] لیکن درحقیقت وہ کسی مسلک کے پابند نہ تھے،البتہ صاحب ِفقہ اور مجتہد ہونے کے باوجود امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ سے علمی وفقہی طور پر زیادہ قربت رکھتے تھے ۔ تصانیف ابو عبید قاسم رحمہ اللہ علمی کمالات کے ساتھ مسلمہ مصنف اور اہل قلم بھی تھے۔ علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ’’ ان کی تصانیف لوگوں میں مشہور اور مقبول تھیں ۔‘‘ [4] |