کشف الظنون نے لکھا ہے کہ ’’ لوگوں نے ابو عبید رحمہ اللہ کو ممتاز قاری قرار دیا ہے۔ ‘‘[1] بعض مؤرخین نے ان کو أحد أئمۃ القرآن کے نام سے یاد کیا ہے ۔ 2.حدیث ابو عبید رحمہ اللہ کو جن علوم سے خاص تعلق اور اشتغال تھا، ان میں ایک فن حدیث بھی ہے۔ طلب حدیث میں موصوف کے شوق و دلچسپی کا مؤرخین اور علماے سیرت نے خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا ہے ۔ اصحابِ فن نے المُحدِّث اور عالم بالحدیث کے الفاظ سے ان کا تذکرہ کیا ہے ۔ فن حدیث میں اُنہوں نے کئی کتابیں تصنیف کیں جو متاخرین علما کی توجہ کا مرکز رہیں ۔ ابو عبید رحمہ اللہ حدیثوں کے حافظ اور اس کی دقیق علتوں سے پوری طرح باخبر تھے ۔ امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے اُنہیں ثقہ و مامون، دار قطنی، یحییٰ بن معین اور ابن ناصر الدین نے ثقہ اور حافظ، ابن حجر نے ثقہ اور فاضل قرار دیا ہے ۔[2] 3. فقہ علامہ ابو عبید رحمہ اللہ کا خاص فن فقہ ہے، اس موضوع پر ان کی متعدد تصانیف ہیں ۔خطیب بغدادی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ فقہ میں ابو عبید رحمہ اللہ کی نظر بڑی دقیق اور راسخ تھی۔ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے اُنہیں فقیہ و مجتہد اور عارف بالفقہ کے لقب سے موسوم کیا ہے ۔ [3] 4. ادب و عربیت ابو عبید قاسم رحمہ اللہ کو سب سے زیادہ لگائو ادب، لغت، نحو اور عربیت سے تھا۔ ان فنون میں ان کی کئی بلند پایہ کتابیں ہیں ۔ علامہ ابن سعد رحمہ اللہ نے ان کو ادیب ، صاحب ِنحو و عربیت لکھا ہے ۔ [4] علمی مقام و مرتبہ محدث ابو عبید رحمہ اللہ قاسم کے علم و فضل کے متعلق بے شمار اَقوال کتابوں میں مذکور ہیں ۔ ان |