Maktaba Wahhabi

69 - 77
معاشی ترقی یعنی تمتع فی الارض کے قابل ہوکر اپنے دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کر سکیں ۔ ٭ اس تجزئیے کے پیچھے دو مفروضات کار فرما تھے: اوّلاً مسلمانوں کے زوال کا مطلب ان کا معاشی ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانا ہے، دوم مسلمان انہی معنی میں ایک قوم ہیں جن معنی میں دیگر اَقوام ہیں کہ ہمارے بھی ان کی طرح کچھ ’اجتماعی مادی حقوق ‘ ہیں جن کی خاطر ہمیں جدوجہد کرنا ہے، اتنے فرق کے ساتھ کہ ہماری قدرِ مشترک (uniting factor) اسلامیت ہے۔ ٭ اس حکمت ِعملی کو شرمندئہ تعبیر کرنے کیلئے مسلم متجددین کو تین محاذوں پر کام کرنا پڑا: اوّل: اُنہوں نے اسلام کی تعبیر و تشکیل نوع کا بیڑا اٹھایا کیونکہ ’ملا کے اسلام‘ میں ہر گز یہ گنجائش موجود نہ تھی کہ وہ سائنسی علمیت کا اسلامی جواز فراہم کرسکے، لہٰذا ضرورت اس امرکی تھی کہ اسلام کی معتبر تاریخ اور اجماعی تعبیر کو ردّ کرکے الٰہیات کی ایسی نئی تعبیر و تشکیل کی جائے جو ’موجودہ زمانے کے تقاضوں ‘ سے ہم آہنگ ہو، ماورا اس سے کہ وہ تقاضے بذاتِ خود اسلام میں جائز ہیں یا ناجائز؟ گویا اس تحریک کے ہم نواؤں کے خیال میں مسلمانوں کے زوال کی اصل وجہ ان کی عملی کوتاہیاں نہیں بلکہ اس اسلامی علمی (epistemological) تعبیر کی خرابی تھی جو اُنہیں اسلاف سے ورثے میں ملی، لہٰذا کرنے کا اصل کام مسلمانوں کی اصلاح و ارشاد نہیں بلکہ اسلامی علمیت کی تشکیل نوع(Reconstruction) و اصلاح (Reformation) ٹھہری ۔ دوم: مسلمانوں میں سائنسی تعلیم کے فروغ کے لئے جدید تعلیمی اداروں کا جال پھیلانا ، اور سوم: مسلم قوم پرستی کے جذبات کی آبیاری کے لئے ’مسلمانوں کے (سرمایہ دارانہ) حقوق، (مثلاً سرمایہ دارانہ نظم میں ان کے معاشرتی، معاشی، تعلیمی و سیاسی حقوق کے تحفظ ) پر مبنی سیاسی جدوجہد مرتب و منظم کرنا ( یہی مسلم قوم پرستی درحقیقت ’تحریک ِپاکستان‘ کی اصل بنیاد تھی جیسا کہ مولانا مودودی رحمہ اللہ نے اچھی طرح بھانپ لیا تھا کہ یہ خالصتاً ایک ’مسلم قوم پرستانہ تحریک ‘ ہے اور اسی بنیاد پر وہ اس تحریک سے علیحدہ رہے۔ )
Flag Counter