کے لئے استعمار مخالفت کی بنیاد بنے، کیونکہ ہماری جدوجہد کی اصل بنیاد یہ نہیں کہ استعمار ہمارے لوگوں کے حقوق غصب کررہا ہے یا یہ ہماری قومی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے، بلکہ یہ ہے کہ استعمار ہیومن رائٹس، جمہوریت و ترقی کے نام پر جو کچھ ہم پر مسلط کررہا ہے، وہ ظلم کی ہی دوسری شکل ہے۔ اگر اسلامی تحریکات کے لئے بھی ’قومی سلامتی‘، ’ملکی خودمختاری‘ اور ’عوامی حاکمیت‘ جیسے تصورات اصل مقاصد بن جائیں اور وہ انہی کی بنیادوں پر اپنی حکمت ِعملی استوار کرنے لگیں تو ایک طرف وہ اپنا اسلامی تشخص کھو دیتی ہیں اور دوسری طرف سرمایہ دارانہ نظام کے استحکام کا باعث بنتی ہیں ۔ لہٰذا کارکنانِ تحریکاتِ اسلامیہ کے لئے لازم ہے کہ وہ ایسی استعمار مخالف تحریکوں کی حقیقت اچھی طرح پہچان لیں ۔ استعمار کی مخالفت کی بنیاد پر سرمایہ دارانہ حقوق کی جدوجہد استوار کرنے کی ایک وجہ اسلامی تحریکات پر مسلم قوم پرستی کا اثر و نفوذ ہوناہے۔ برصغیر پاک وہند میں مسلم قوم پرستی کی جڑیں نہایت گہری ہیں جس پر مختصراً گفتگو کرنا موجودہ ضمن میں نہایت ضروری ہے : ٭ اُنیسویں صدی میں استعماری غلبے اور اپنی آزادی چھن جانے کے بعد مسلم مفکرین کے پاس فرصت کے اتنے طویل لمحات میسر نہ تھے کہ وہ اپنے زوال کی وجوہات پر گہرے اور علمیاتی منہج پر مبنی غور و فکر کے بعد مستقبل کے لئے کوئی پائیدار لائحہ عمل مرتب کرتے۔ وقت کا تقاضا یہی تھا کہ فوری حل پیش کیا جائے اور ابتری کی اس حالت میں اُنہیں سر سید احمد خاں جیسے مفکرین کی یہ بات معقول نظر آئی کہ مسلمانوں کے زوال کی اصل وجہ سائنس و ٹیکنالوجی اور مادی ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانا ہے اور پورپی اَقوام کے عالمی تسلط کاراز اس کی زبردست سائنسی علمیت اور قوت میں پنہاں ہے جس کے ذریعے وہ تسخیر کائنات اور تمتع فی الارض میں کامیاب ہوگئے۔ ٭ مسلمانانِ برصغیر میں بڑی حد تک قبول عام حاصل کرنے والی اس فکر سے جو حکمت عملی مرتب ہوئی، اس کا حاصل یہ تھا کہ مسلمانوں کو استعمار کے نافذ کردہ ’نظام کے اندر ‘ ہی اپنا مقام پیدا کرنا چاہئے اور اس مقصد کے حصول کے لئے کرنے کا اصل کام سائنسی علمیت اور ٹیکنالوجی میں جلد از جلد مہارتِ تامہ حاصل کرنا ہے تاکہ مسلمان بھی زیادہ سے زیادہ |