بنیادی اہمیت یہ ہے کہ قوم پرستانہ تحاریک کی کامیابی سے دو فائدے حاصل ہوتے ہیں : 1. ان کے نتیجے میں نظامِ اقتدار پر استعماری نظام کا قبضہ کمزور ہوجاتا ہے، یعنی استعمار کی یہ صلاحیت کم ہوجاتی ہے کہ وہ سرمائے کی تنظیم کے فیصلے سرمائے کے عالمی مراکز اور عالمی مفادات کے تناظر میں نافذ کرواسکے، کیونکہ ’طاقتور قوم پرستانہ ممالک تنظیم‘ سرمائے کے فیصلے عالمی منڈی و نظام کے مفادات نہیں بلکہ قومی مفادات کی روشنی میں کرتے ہیں (مثلاً ان کی تجارتی و زری پالیسیاں آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک وغیرہ کی تجاویز سے طے نہیں پاتیں بلکہ ان پالیسیوں کو وضع کرتے وقت وہ ان کے ذریعے سرمائے کے اپنے ملک میں مرتکز ہونے کے امکانات کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں ، نہ کہ عالمی منڈی کے مفادات کو)۔ اشتراکیوں کے ایک گروہ کے مطابق اشتراکیت کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ ہم طویل المدتی مقاصد کے حصول کے لئے جو بھی قلیل المدت حکمت عملی اپنائیں ، وہ عوامی اکثریت کے خلاف نہیں ہونی چاہئے، یعنی اگر پاکستانی عوام کسی مخصوص وقت میں ’پاکستانی قوم پرستی‘ سے مغلوب ہوکر امریکی استعمار کے خلاف جدوجہد کرنے پر آمادہ ہوں تو ہمیں ان کا ساتھ دینا چاہئے نہ کہ اس کی مخالفت۔ 2. ایسے قوم پرستانہ ممالک جو لبرل استعمار سے آزاد ہوں ، وہاں اشتراکیت کے اثر و رسوخ کو بڑھانا نسبتاً ان ممالک کے مقابلے میں آسان ہے کہ جہاں یا تو استعمار بالفعل قابض ہو (مثلاً افغانستان یا عراق) یا جن کی حیثیت محض استعمار کی باج گزار ریاست کی ہو (مثلاً پاکستان) ۔ چونکہ ’لبرل عالمگیری استعمار‘ اشتراکیت کی راہ میں حائل ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے اور قوم پرستانہ تحریکیں اسے کمزور کرنے کا اہم ذریعہ ہیں لہٰذا اشترکیوں کے خیال میں ہمیں قوم پرستانہ تحریکوں کا بھر پور طریقے سے ساتھ دینا چاہئے کہ ان کی کامیابی اشتراکیت کے فروغ کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔ البتہ اشتراکیوں میں اس امر پر اختلاف بھی پایا جاتا ہے کہ کیا قوم پرستانہ جدوجہد طبقاتی کشمکش کو ختم کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے یا نہیں ؟ |