سودے میں دو سودوں سے منع فرمایا، کی تشریح سماک رحمہ اللہ نے یوں کی ہے کہ فروخت کنندہ یہ کہے کہ اُدھار اتنے کی اور نقد اتنے کی۔ مگریہ تشریح کمزور ہے کیونکہ اس صورت میں نہ تو سود شامل ہے اور نہ ہی دو سودے ہوئے ہیں ،صرف دو قیمتوں میں سے ایک قیمت کے ساتھ سودا طے پایاہے۔ 2.اس کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ فروخت کنندہ یوں کہے کہ میں آپ کو یہ چیز ایک سا ل کی مدت کے لیے ایک سو کے بدلے اس شرط پر فروخت کرتا ہوں کہ میں آپ سے اَسّی کی نقد خرید لوں گا، حدیث کا اس کے علاوہ دوسرا کوئی معنی نہیں ہے۔‘‘ [تہذیب :۵/۱۰۵،۱۰۶] اس تفصیل سے یہ حقیقت پوری طرح واضح ہو گئی کہ نقداور اُدھار کے لیے دو علیحدہ علیحدہ قیمتیں مقرر کرنے سے اس حدیث کی مخالفت نہیں ہوتی جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیع میں دو بیع سے منع فرمایا ہے۔ مزید تفصیلات کے لیے اَحقر کی کتاب ’’ دورِ حاضر کے مالی معاملات کا شرعی حکم ‘‘ ملاحظہ فرمائیے۔ 4. اَدائیگی عمدہ طریقے سے کی جائے ادھار میں بیع مکمل ہوتے ہی قیمت مشتری کے ذمے دَیْن(Debt) ہو جاتی ہے لہٰذا مشتری کا فرض ہے کہ وہ طے شدہ مدت کے اندر ادائیگی یقینی بنائے، لیت ولعل یا پس و پیش نہ کرے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض کی ادائیگی پر قادر مقروض کی طرف سے ٹال مٹول کو ظلم سے تعبیر فرمایاہے۔ فروخت کنندہ کو بھی چاہیے کہ وہ طے شدہ مدت سے قبل ادائیگی کا مطالبہ نہ کرے۔ اگر خریدار تنگ دست ہو تو قرآنی حکم کے مطابق اس کو فراخ دستی تک مہلت دی جائے، اور اگر کسی وجہ سے بر وقت ادائیگی نہ کرسکے تو جرمانہ وصول نہ کیا جائے، کیونکہ یہ سود کے زمرے میں آتاہے۔ 5. مارکیٹ ریٹ خراب نہ کریں اور قیمت کا تقرر بلاشبہ انسان اپنی چیز جس قیمت پر چاہے، فروخت کر سکتا ہے شریعت کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن جس طرح استحصال اور ظالمانہ منافع خوری منع ہے، اسی طرح نامناسب حد تک قیمتیں کم کر کے مارکیٹ کا توازن خراب کرنے کی بھی اجازت نہیں ۔ چنانچہ امام مالک رحمہ اللہ نے اپنی شہرہ آفاق تالیف مؤطا میں حضرت عمر ؓ کا یہ واقعہ نقل کیا ہے : |