Maktaba Wahhabi

54 - 77
أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ مَرَّ بِحَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَۃَ وَہُوَ یَبِیعُ زَبِیبًا لَہُ بِالسُّوقِ فَقَالَ لَہُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: إِمَّا أَنْ تَزِیدَ فِي السِّعْرِ وَإِمَّا أَنْ تُرْفَعَ مِنْ سُوقِنَا [موطأ:کتاب البیوع،باب الحکرۃ والتربص] ’’عمر بن خطاب ؓ حاطب بن ابی بلتعہؓ کے پاس سے گزرے اور وہ بازار میں اپنا منقیٰ بیچ رہے تھے، تو حضرت عمر ؓنے ان سے کہا: یا تو قیمت میں اضافہ کرو یا ہمارے بازار سے اٹھ جاؤ۔‘‘ مارکیٹ ریٹ سے بہت کم قیمت رکھنا بھی در اصل اجارہ داری قائم کرنے اور دوسرے تاجروں کا راستہ روکنے کا ایک حربہ ہے، بالخصوص چھوٹے تاجر اس سے بہت زیادہ متأثر ہوتے ہیں اسی وجہ سے حضرت عمر ؓحاطب بن ابی بلتعہ کو انتہائی کم نرخ پر بیچنے سے منع فرمادیا۔ جو حضرات قیمتوں میں عدم مداخلت کے قائل ہیں ، وہ اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ سیدناعمر ؓنے اپنے موقف سے رجوع کر لیا تھاجیساکہ سنن بیہقی میں ہے کہ جب حضرت عمرؓ بازار سے واپس آئے تو اپنا محاسبہ کیااور حاطب بن ابی بلتعہؓ کے گھر تشریف لے گئے اور ان سے فرمایا: یہ میرا فیصلہ نہیں ہے۔ میرا مقصد تو شہر والوں کی بھلائی تھا، ورنہ آپ جہاں چاہیں اور جیسے چاہیں بیچیں ۔ [موطا:ج۶/ص۲۹] لیکن یہ روایت ثابت نہیں کیونکہ اس کو حضرت عمرؓسے قاسم بن محمد بیان کرتے ہیں جن کی حضرت عمر سے ملاقات ثابت نہیں ۔ [السنن الکبریٰ :ج۷/ ص۳۸۳، فتح الباری :ج۹/ص۴۷۸] باقی جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سرکاری طورپر اشیا کے ریٹ مقرر کرنے کی درخواست کی گئی تو آپ نے اتفاق نہ کیااور فرمایا : إِنَّ اللّٰهَ ہُوَ الْمُسَعِّرُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الرَّازِقُ [سنن ابو داؤد:باب فی التسعیر،سنن الترمذی :باب ما جاء فی التسعیر] ’’اللہ تعالیٰ ہی نرخ مقرر کرنے والا، تنگی، کشادگی کرنے والا اور رازق ہے۔ ‘‘ تو یہ اس تناظر میں فرمایا جب قیمتوں میں اضافہ فطری اُصول کے تحت ہو رہا ہو، اس میں ناجائز منافع خوری کا عمل دخل نہ ہو۔لیکن اگر تاجرصارفین کے ساتھ صریح زیادتی کر رہے ہوں تو پھر حکومتی مداخلت ناگزیر ہو جاتی ہے،ایسی صورت میں عوام کو تاجروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا مناسب نہیں ۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’تاجروں کی ظالمانہ منافع اندوزی کو کنٹرول کرنا جائز ہے کیونکہ یہ فساد فی الارض ہے۔‘‘ [حجۃ اللہ البالغہ:ج۲/ ص۱۹۹]
Flag Counter