وجہ سے قیمت میں اضافہ جائز سمجھتے ہیں ، چنانچہ امام شوکانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : قَالَتِ الشَّافِعِیَّۃُ وَالْحَنَفِیَّۃُ وَزَیْدُ بْنُ عَلِيٍّ وَالْمُؤَیَّدُ بِاللّٰهِ وَالْجُمْہُورُ: إنَّہُ یَجُوزُ لِعُمُومِ الْأَدِلَّۃِ الْقَاضِیَۃِ بِجَوَازِہِ وَہُوَ الظَّاہِرُ [نیل الاوطار: ج۸/ص۲۰۱] ’’شافعیہ، حنفیہ، زید بن علی، مؤید باللہ اور جمہور نے جواز کے عمومی دلائل کی بنا پر اسے جائز قرار دیا ہے اور ظاہر بھی یہی ہے۔‘‘ ٭ امام شوکانی رحمہ اللہ نے اس کے حق میں ایک رسالہ بھی لکھا ہے جس کا نام ہے: شِفَائُ الْغَلِیلِ فِي حُکْمِ زِیَادَۃِ الثَّمَنِ لِمُجَرَّدِ الْأَجَلِ اس رسالہ میں اُنہوں نے زیر بحث مسئلہ کے متعلق بڑی عمدہ تحقیق پیش فرمائی ہے چنانچہ وہ خودفرماتے ہیں : ’’ ہم نے اس میں ایسی تحقیق پیش کی ہے جو ہم سے پہلے کسی نے نہیں کی۔ ‘‘[ ایضاً: ص۲۰۲] ٭ اہل حدیث اکابر علماء سید میاں نذیر حسین محدث دہلوی، نواب صدیق حسن خان،مولانا ثناء اللہ امرتسری اور حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمہم اللہ کا موقف بھی یہی ہے کہ اُدھار میں زائد قیمت رکھی جا سکتی ہے۔ [فتاویٰ نذیریہ :ج۲/ ص۱۶۲، الروضۃ الندیۃ: ج۲/ص۸۹، فتاوی ثنائیہ:ج۲/ص۳۶۵، فتاویٰ اہل حدیث :ج۲/ ص۲۶۳،۲۶۴] ان حضرات کی دلیل یہ ہے کہ قرآن حکیم کی آیت:﴿ وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَــیْعَ﴾ [البقرۃ:۲۷۵] ’’اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال کیا ہے ‘‘سے پتہ چلتا ہے کہ سوائے ان شکلوں کے جن کی حرمت قرآن و حدیث میں بیان کر دی گئی ہے، خرید وفروخت کی تمام صورتیں جائز ہیں ،چونکہ قرآن کی کسی آیت یا حدیث ِنبوی سے یہ واضح نہیں کہ اُدھار میں زائد قیمت لینا غلط ہے، اس لیے یہ جائز ہے۔ جن علما کے نزدیک نقد اور اُدھار کی صورت میں علیحدہ علیحدہ قیمت رکھنا ناجائز ہے، وہ ان روایات سے استدلال کرتے ہیں : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیع میں دو بیع سے منع فرمایا۔ ‘‘ [جامع ترمذی :کتاب البیوع باب ما جاء في النھي عن بیعتین في بیعۃ] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجو ایک بیع میں دو بیع کرے، اس کے لیے کم قیمت ہے یا سود۔ ‘‘ [سنن ابی داؤد:باب فیمن باع بیعتین فی بیعۃ] |