Maktaba Wahhabi

50 - 77
قیمت مجہول ہونے کی ایک شکل یہ ہے کہ چیز خریدتے وقت قیمت کاتذکر ہ ہی نہ ہواور دوسری صورت یہ ہے کہ تذکر ہ تو ہو مگر اس طرح کہ فریقین میں سے کسی کو متعین قیمت کا علم نہ ہو۔ مثلاً یوں کہا جائے کہ میں فلاں چیز کو اس کی بازاری قیمت پرخریدتا ہوں یا اس قیمت پر خریدتا ہوں جو اس پر درج ہے جبکہ اُسے یہ معلوم نہ ہو کہ اس کی بازاری قیمت یا اس پر درج شدہ قیمت کیا ہے۔ چنانچہ علامہ بہوتی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فإن باعہ برقمہ أي ثمنہ المکتوب علیہ وہما یجہلانہ أو أحدہما لم یصح للجہالۃ [الروض المربع: ص۲۸۱] ’’اگر اس کو اوپر لکھی ہوئی قیمت پر بیچے جبکہ وہ دونوں یا ان میں سے ایک بھی لکھی ہوئی قیمت سے نا واقف ہو تو قیمت مجہول ہونے کی بناپر بیع صحیح نہیں ہو گی۔‘‘ اسی طرح یہ کہنا بھی صحیح نہیں کہ جس قیمت پر فلاں شخص نے فروخت کی ہے یا جس قیمت پر لوگ فروخت کر رہے ہیں ، اسی قیمت پر میں آپ کو بیچتا ہوں لیکن فریقین اس قیمت سے واقف نہ ہوں یا یہ کہناکہ جو قیمت آپ کو پسند ہو وہ دے دینا یا جس قیمت پر میں نے خریدی ہے، اسی پر آپ کو بیچتا ہوں جبکہ خریدار کو قیمت ِخرید کا علم نہ ہو، کیونکہ ان صورتوں میں قیمت مجہول رہتی ہے جو نزاع کا باعث بن سکتی ہے جبکہ شریعت کا تقاضا یہ ہے کہ قیمت پہلے طے ہونی چاہیے تا کہ جھگڑے کا خطرہ نہ رہے۔ البتہ اگر مجلسِ عقد کی برخاستگی سے قبل حتمی قیمت کاعلم ہو جائے تو پھر بیع جائز ہو گی۔ 3. نقد اور اُدھار قیمت میں فرق یہ امر تو طے ہے کہ خرید وفروخت جس طرح نقد جائز ہے، ادھار بھی جائز ہے بشرطیکہ ادائیگی کی مدت معلوم ہولیکن کیا اُدھار کی صورت میں نقد کے مقابلہ میں زائد قیمت رکھنا جائز ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے جو قیمت پر گفتگو کرتے ہوئے پوری شدت سے اُبھر کر سامنے آتا ہے کیونکہ عصر حاضر میں قسطوں پر لین دین کا رواج ہے اور اس میں ہمیشہ نقد کی نسبت زیادہ قیمت رکھی جاتی ہے۔ بعض علما اس کو ناجائز قرار دیتے ہیں لیکن اگر دلائل کی روشنی میں غور کیا جائے تو ان کی رائے صائب معلوم نہیں ہوتی۔یہی وجہ ہے کہ بیشتر فقہاے محدثین اُدھارکی
Flag Counter