دنیا کا کوئی کھانا اچھا نہیں لگتا، اگرچہ وہ کتنا ہی مزیدار ہو۔ موسم گرما کے تندرست روزے دار کو افطار کے وقت سادہ ٹھنڈا پانی کس قدر پیارا اور خوش گوار لگتا ہے اور روٹی کا خشک ٹکڑا کس قدر لذیذ لگتا ہے! شاید اس کے مقابلے میں دنیا بھر کے شکم سیروں اور بیماروں کو کبھی اتنی خوش نصیب نہ ہوئی ہو، اگرچہ وہ کتنے ہی مزیدار کھانے کیوں نہ کھا لیں اور پھر بیمار آدمی کو تو ویسے ہی روغنی پراٹھا بے ذائقہ اور جامِ شیریں ، زہر محسوس ہوتا ہے۔ اس بنا پر امیر المؤمنین نے اعرابی کی بات سے اتفاق کیا اور کہا: واقعی تو نے لذیذ ترین کھانا کھایا اور پھر اعرابی سے گویا ہوا: ’’ذرا یہ تو بتا کہ تو کون ہے؟‘‘ اعرابی: اے امیر المؤمنین! میں وہ انسان ہوں جس کی ایک طرف بنو تمیم اور بنو اسد کا عنعنہ ہے اور دوسری طرف بنو ربیعہ کا کسکسہ اور یمنیوں کی غرابت ہے۔ امیر المؤمنین: اچھا، اگر تو ان میں سے ہے تو ان کے کون سے قبیلے سے تعلق رکھتا ہے۔؟ اعرابی: جی میں آپ کے ننھیالی خاندان بنو عذرہ سے تعلق رکھتا ہوں ۔ امیر المؤمنین: وہ تو بڑا فصیح اللسان خاندان ہے، بھلا تجھے بھی شعر و ادب سے شغف ہے؟ اعرابی: امیر المؤمنین آپ کچھ پوچھ کر ہی اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں ؟ امیر المؤمنین: بتاؤ، عربوں میں سے سب سے مدحیہ شعر کس نے کہا ہے؟ اعرابی: جریر بن عطیہ نے، اور وہ یہ ہے: ألستم خیر من رکب المطایا؟ وأندی العالمین بطون راح؟ ’’کیا تم سواریوں پر سوار ہونے والوں میں سے افضل و اعلیٰ سوار نہیں ہو اور کیا تم کشادہ ہاتھ والے سخیوں میں سے فیاض ترین سردار نہیں ہو؟‘‘ دربارِ خلافت کی اس مجلس عام میں اس شعر کا شاعر جریر بن عطیہ بھی موجود تھا، وہ سنجیدہ ہو کر بیٹھ گیا اور سر اونچا کر کے شرکائے مجلس پر نظریں گھمانے لگا تاکہ ان کے تاثرات کا جائزہ لے سکے۔ امیر المؤمنین نے اعرابی سے دوسرا سوال کیا: کہ اب بتاؤ، عربوں میں سب سے زیادہ فخریہ شعر کس نے کہا ہے؟ اَعرابی: جریر بن عطیہ نے، اور وہ یہ ہے: إذا غضبت علیک بنو تمیم حسبتَ الناس کلھم غضابًا ’’جب تجھ پر بنو تمیم غضبناک ہو جاتے ہیں تو تو سب لوگوں کو اپنے اوپر غضبناک سمجھنے لگتا ہے۔‘‘ یہ سن کر جریر کے دل میں مسرت کی لہریں موجزن ہو گئیں اور وہ بے خود ہو کر جھومنے لگا۔ |