فلا باس باتخاذه مطلقا ’’بعض سلف کا قول ہے کہ سایہ دار تصویریں (یعنی مورتیاں ) منع ہیں اور رَہیں غیر سایہ دار تصویریں تو اُن کو رکھنا اور استعمال کرنا ہر طرح سے جائز ہے۔‘‘ اوپر جن بعض مالکیہ کا ذکر ہے، اُن میں سے علامہ دردیر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : والحاصل أن تصاوير الحيوان تحرم إجماعا إن كانت كاملة لھا ظل مما يطول استمراره بخلاف ناقص عضو لا يعيش به لو كان حيوانا وبخلاف ما لا ظل له كنقش في ورق أو جدار أو في ما لا يطول استمراره خلاف والصحيح حرمته (تكلمة فتح الملھم: ۴/۱۵۹) ’’حاصل یہ ہے کہ جانداروں کی تصویروں کا استعمال بالاتفاق حرام ہے اگر وہ مکمل ہوں اور سایہ دار ہوں اور ایک عرصہ تک رہتی ہوں برخلاف اُس تصویر کے جس میں ایسا عضو کم ہو جس کے بغیر جاندار زندہ نہیں رہ سکتا اور بر خلاف غیر سایہ دار تصویر کے جیسے کاغذ یا دیوار پر نقش ہو۔ اگر ایسی چیز پر نقش ہو جو زیادہ دیر نہیں رہتی مثلاً خربوزے کے چھلکے پر تو اس میں اختلاف ہے۔ اور صحیح یہ ہے کہ یہ بھی حرام ہے۔‘‘ اس عبارت میں تصاویر کی حرمت اور عدمِ حرمت سے مراد استعمال کی حرمت وغیرہ ہے کیونکہ یہاں کاغذ یا دیوار پر نقش کے جائز ہونے کا حکم لگایا ہے۔ حالانکہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کی بات اُوپر گزر چکی ہے کہ ان پر بھی تصویر بنانا بالاتفاق حرام ہے۔ لہٰذا یہاں مراد استعمال ہے نہ کہ تصویر سازی۔ اسی طرح حضرت قاسم بن محمد رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں جو روایت ہے، اس کو ابن ابی شیبہ نے نقل کیا ہے: عن ابن عون قال دخلت علی القاسم وھو بأعلی مكة في بيته فرأيت في بيته حجلة فيھا تصاوير الندس والعنقاء ’’ابن عون کہتے ہیں کہ میں بالائی مکہ میں حضرت قاسم بن محمد رحمۃ اللہ علیہ کے گھر میں داخل ہوا تو میں نے اُن کے کمرے میں ایک پردہ دیکھا جس پر پرندوں کی تصویریں تھیں ۔‘‘ اس روایت میں بھی جاندار کی تصویر کے استعمال کا ذکر ہے، بنانے کا کچھ ذکر نہیں ہے۔ |