اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل ۲۴۷، دفعہ ۴ کی رو سے صوبے کا گورنر، صدرِ مملکت کی پیشگی منظور کے بعد کسی بھی ایسے معاملے کی بابت، جو صوبائی اسمبلی کی قانونی عمل داری میں آتا ہو، ایسے ریگولیشنز (قواعد و ضوابط) وضع کر سکتا ہے جو صوبے کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں امن اور گڈ گورننس کے قیام کو یقینی بنا سکے۔ چنانچہ ان اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے شمال مغربی سرحدی صوبے کے گورنر نے صدرِ مملکت کی منظوری کے بعد درج ذیل ریگولیشنز کا اعلان کیا ہے: 1. مختصر عنوان، مدت اور آغاز: 1. اس ریگولیشن کو ’شریعت کے نظامِ عدل ریگولیشن ۲۰۰۹ء‘ کا نام دیا جائے گا۔ 2. اس کا اطلاق صوبے کے زیر انتظام آنیوالے ان تمام علاقوں پر ہو گا ماسوائے ان قبائلی علاقوں کے جو ضلع مانسہرہ سے ملحقہ اور سابق ریاست امب میں شامل ہیں ، اور آگے چل کر جنہیں مذکورہ علاقوں کے نام سے پکارا جائے گا۔ 3. اس ریگولیشن پر فوری عمل در آمد کیا جائے گا۔ 2. تعریفات 1. ان ریگولیشنز میں اسی وقت تک، جب تک، موضوع یا متن میں کسی قسم کی ناخوشگوار تبدیلی واقع نہ ہو جائے: الف ) ’عدالت‘ کا مطلب ہو گا، ایسی عدالت جس کا دائرۂ عمل و اختیار مکمل طور پر آزاد اور خود مختار ہو اور جسے موجودہ ریگولیشن کے تحت قائم اور مقرر کیا گیا ہو۔ جس میں اپیل کے لئے بھی عدالت شامل ہو گی یا پھر کیس کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے نظر ثانی کی عدالت بھی شامل کی جا سکتی ہے۔ ب ) ’دارُ القضا‘ کا مطلب ہو گا: ایسی عدالت جہاں آخری اپیل دائر کی جا سکے یا نظر ثانی کی عدالت جو مذکورہ علاقے کی حدود کے اندر واقع ہو اور جو آئین کے آرٹیکل ۱۸۳ کی دفعہ ۲ کے عین مطابق ہو۔ ج ) ’دار القضا‘ کا مطلب ہو گا: اپیل یا نظر ثانی کی عدالت جسے شمال مغربی سرحدی صوبے کے |