Maktaba Wahhabi

34 - 79
کی خاطر اپنی جدوجہد کا رُخ آئینی، قانونی اور سیاسی طریقہ کار کی طرف پھیر دیا۔ لال مسجد کے واقعے کے بعد علماء کے بیانات سے ایک دفعہ پھر یہ بحث واضح ہو گئی ہے کہ اُنہوں نے اپنے حق میں نفاذِ شریعت کے لئے پر اَمن جدوجہد ہی کو اصل منہج قرار دیا ہے۔ اگرچہ علماء وہ پر امن جدوجہد کر رہے ہیں یا نہیں ؟۔۔۔۔ یہ ایک سوالیہ نشان ضرور باقی رہ جاتا ہے!! سوات میں تحریکِ نفاذ شریعت محمدی کے بارے میں اس وقت مذہبی حلقے دو حصوں میں تقسیم ہو گئے ہیں ۔ ایک تو حکومتی و سیاسی ملاؤں کا ٹولہ ہے جو حکومت وقت کی تائید و خوشنودی حاصل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ درباری مولویوں اور گدی نشینوں کا یہ طبقہ کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ توحید کے متوالوں کی حکومت قائم ہو اور مذہبی استحصال پر مبنی ان کے کاروبار و تجارت متاثر ہو۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ بعض سرکاری مولویوں نے مولانا صوفی محمد کے بعض فتاویٰ پر شدید جرح کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر مولانا صوفی محمد نے پارلیمنٹ کو کفریہ قرار دیا ہے تو جمہوری نظام کے کفر ہونے میں راسخون فی العلم کے ہاں کہاں دو آرا پائی جاتی ہیں ؟ جمہوری نظام کفر تو ہے، لیکن اس کفر کے ساتھ رویہ یا معاملہ کیسا ہونا چاہئے؟ اس کفر یہ نظام میں رہتے ہوئے اس کو تبدیل کرنے کی جدوجہد کیسے ہو؟ کفریہ نظام کی تبدیلی کے لئے اس میں شامل ہو کر اس کے خلاف جدوجہ کی جائے مثلاً بذریعہ انتخاب یا کسی حکومتی ادارے مثلاً اسلامی نظریاتی کونسل شرعی عدالت کی سرپرستی کے ذریعے آئین، قانون اور نظام میں تبدیلی لائی جائے یا اس سے باہر رہتے ہوئے انتخابات کے علاوہ احتجاج کا رستہ اختیار کیا جائے؟ یہ موضوع در حقیقت علما کے مابین محل اختلاف ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مولانا صوفی محمد کے اس بیان سے کسی فتویٰ کی اہمیت سامنے آئی ہے اور حکمران طبقے نے اپنے خلاف کفر کے فتویٰ میں جو دفاعی انداز اختیار کیا ہے،و ہ قابل تعجب ہے۔ ہمارے خیال میں یہ وہ موقع ہے جبکہ علمائے پاکستان کو متحد ہو کر پارلیمنٹ، حکومتِ وقت اور جمہوری نظام کی شرعی حیثیت کو فتویٰ کی زبان سے واضح کرنا چاہئے اور اس میں مقصد لوگوں کو خروج یا بغاوت پر آمادہ کرنا نہ ہو بلکہ:
Flag Counter