جائے؟ بیروزگاری کے عفریت، معاشی بد حالی، فقر و فاقہ کے نتیجے میں خود کشیاں ، غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ، جرائم کی کثرت، عدالتوں میں انصاف کا بحران، پولیس اور لینڈ مافیا کا ظلم و ستم، امن و امان کی تباہی، انٹر نیٹ اور کیبل کی صورت میں عریانی و فحاشی کا سیلاب، وڈیرہ شاہی، جاگیردارانہ نظام، کرپشن، رشوت خوری، چوری و ڈکیتی، زنا و گینگ ریپ، عورتوں کو زندہ دفن کر دینا، غیر انسانی طبقاتی تقسیم، منشیات و شراب کی سر عام فروخت، گلی کوچوں اور سڑکوں پر ڈاکوؤں کی قتل و غارت اور عامۃ الناس پر ظلم و ستم کی انتہا کرنے والی لسانی و علاقائی تنظیمیں ۔۔۔ کیا پاکستان کی عوام یہ سب کچھ چاہتی ہے؟ اگر نہیں تو اس کو اُن پر مسلط کرنے کا ذمہ دار کون ہے؟ حکومت کا ظالمانہ اور کرپشن پر مبنی ناقص نظام یا طالبان؟ پاکستانی معاشرے پر ان گندگیوں کو کس نے جبراً مسلط کیا ہے؟ حکومتِ وقت نے یا مولانا صوفی محمد نے؟ اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان میں اسلامی ریاست کے قیام یا نفاذِ شریعت یا قیام عدلِ اجتماعی یا ظالم حکمرانوں سے آزادی حاصل کرنے کے حوالے سے مذہبی طبقے اپنی جدوجہد کے اعتبار سے بنیادی طور پر دو مناہج میں تقسیم ہو گئے ہیں ۔ ایک منہج تو عسکری ہے جو حکومت کی ظالمانہ پالیسیوں کا ثمر ہے اور دوسرا منہج اس مقصد کے حصول کی خاطر ہر اس جدوجہد پر مشتمل ہے جو پاکستان کے آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہو۔ پاکستان کے قیام کے فوراً بعد علماء اور دینی تحریکوں نے نفاذِ شریعت کے لئے دوسرے منہج کو ہی اختیار کیا۔ ہمارے خیال میں اس طریقۂ کار کو اختیار کرنے کی وجہ یہ نہ تھی کہ اگر پاکستان کے حکمران کافر ہوتے تو پھر بھی علماء اسلامی ریاست کے قیام کے لئے دوسرے منہج ہی کو اختیار کرتے، کیونکہ پہلا منہج ناقابل عمل اور ناممکن ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں برصغیر پاک و ہند میں ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد علماء نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ اس خطہ ارضی میں مسلمانوں کی حکومت دوبارہ بحال کرنے کے لئے عسکری طریقۂ کار ممکن نہیں رہا تو اُنہوں نے اگلی ایک صدی (۱۸۵۷ء تا ۱۹۴۷ء) تک مسلمانوں کی آزادی اور ایک اسلامی ریاست کے قیام |