Maktaba Wahhabi

74 - 79
بھائی بہن وغیرہ بنا کرٹی وی پرپیش کیاجاسکتا ہے؟ جبکہ یہ محض تمثیل اور اداکاری (Acting) ہوگی نہ کہ ایک حقیقت۔ اس ضمن میں ، میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ کے اس رجحان کا بھی ذکر کردوں کہ وہ سرے سے اداکاری ہی کے قائل نہیں تھے، کیونکہ ان کے بقول وہ ایک ایسی نقالی ہے جس سے اداکاریا اداکارہ اپنی شخصیت اور کردار ہی کو کھو بیٹھتے ہیں ؟ اس طرح بذاتِ خود اداکارانہ عمل خود ایک موضوعِ بحث بن کر اُبھرتا اور فیصلہ کن جواب طلب کرتاہے۔ ٹی وی کے حوالے سے یہ مسئلہ بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ 4. ان کے علاوہ جنسی تعلقات، اشارہ اور کنایات، نکتہ سنجی اور نکتہ بازی کے حدودِ جواز بھی صاف صاف طے کرنے ہوں گے۔ اس سلسلے میں مختلف اوقات، موسموں ، تقریبات اور مناسبات میں لباسوں کی خراش تراش، رنگ و روغن اور حدود اربعہ واضح کرنے ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ متعدد چیزیں شریعت ِاسلامیہ سے کوئی میل نہیں رکھتیں ، اسلئے ٹی وی کا استعمال ان متعدد وجوہات کے سبب ایک مسلمان کے لئے کم ازکم مکروہ ہی قرار پاتا ہے۔ 5. ممکن ہے کہ اور بہت سے ایسے پہلوجو میری محدود نظر سے اوجھل رہ گئے ہوں ، مگر ان کو قارئین اور خود ٹی وی کا شو کرنے والوں کو تحریراً اور کلاماً دعوتِ مشارکت دے کر بحث ِعام کے لئے منظرعام پر لایاجاسکتا ہے تاکہ عوام کو اس بارے میں واضح رہنمائی دی جاسکے۔ یہ تو تھی میری حقیر سی رائے اس عددِ خاص کے بارے میں ، لیکن مجھے صرف اشارۃ ًمولانا شیخ الحدیث حافظ عبدالعزیز علوی صاحب کی اس رائے کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ فی زمانہ اپنی اپنی سوچ اور نظریے کے مطابق جماعۃ الدعوۃ اور تبلیغی جماعت بغیر تصویر کے وسیع پیمانے پر دعوتِ دین کام کررہے ہیں ۔ مزیدیہ کہ آج تصویر کے سوا بھی اس قدر ذرائع ابلاغ پیدا ہو چکے ہیں جن کا کوئی شمار نہیں ، آخر ان سب سے کیوں کام نہیں لیا جاتا اور ان کے ذریعہ دین کیوں نہیں پھیلایا جاتا۔ (ص۳۲، حوالہ بالا) اگر ان مزید ذرائع کی بھی مزید تفصیل پیش کردی جاتی تو اچھا ہوتا اور ان کوبھی استعمال کرنے کی راہیں کھلتیں۔
Flag Counter