مدنی (مسئلہ تصویر اور دورِ حاضر: ص۵۹ تا۷۶) نے اپنے اپنے مقالوں میں بڑی حد تک سخت موقف اختیار کیاہے۔مگر مولانا عبدالعزیز علوی اور مولانا حافظ صلاح الدین یوسف صاحب نے ایک تحریر جو بطورِ قرار داد تیار کی تھی اور پیش نہیں کی گئی میں بالآخر کرا ہۃً ہی سہی، اظہارِ اتفاق فرمایا۔ (دیکھئے ص۲۲ حوالہ بالا) اس کے باوجود ہمیں خوشی سے بغلیں نہیں بجانا چاہئے، کیونکہ ٹی وی کا آلہ صرف تصویر کی وجہ سے ہی ناقابل التفات نہیں بلکہ اس میں بے شمار چیزیں ایسی ہیں جن کی شریعت سے کوئی گنجائش نہیں ملتی، چنانچہ کسی اسلامی چینل کے قیام سے پہلے ہمیں کئی ایک مزید شرعی اُمورکے بارے میں واضح شرعی موقف طے کرنا ہوگا ، مثلاً : 1. تصویر کے ساتھ دی جانے والی موسیقی(Music Accompaneing with picture) خصوصاًوثائقی فلمیں (Documentries) اور خبرنامے وغیرہ میں ان کو ایک ’شرِ ناگزیر‘ تصور کیا جاتاہے۔ تو کیا اس عام رجحان کی وجہ سے اور خصوصاً اللجنۃ الدائمۃ کے اس فتویٰ کی بنا پر جس کا ذکر اس عدد خاص کے صفحہ نمبر ۲۳ پر مدیر موصوف نے کیا ہے اور جس میں صراحتاً کہا گیاہے: أما التلفریون فیحرم مافیہ غناء وموسیقي وتصویر وعرض صورۃ (البتہ ٹی وی پرگانے، موسیقی اور تصاویر جیسی منکرات (پیش کرنا)حرام ہے…‘‘ معلوم ہوا کہ نہ صرف موسیقی اور گانا بجانا، بلکہ تصاویر کا پیش کرنا بھی حرام ہے اور اگر ان کو بھی حرام قرار دیاجائے تو پھر ٹی وی پر باقی رہ ہی کیا جاتاہے، کیونکہ فلموں اور فیچروں میں بعض وقت زمینی حقائق کو جیسے بھی وہ ہوں ، پیش کرنے کے لئے ان کا استعمال ضروری ہوجاتاہے۔ 2. بحیثیت ِمجموعی ٹی وی میں عنصر نسائی کے حجاب، اس کے حدود و آداب… جن میں اِلاماظہر منہا بھی شامل ہے … کے بارے میں بھی واضح موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں فلموں اور فیچروں میں ہلکے پھلکے، بظاہر معصوم اوربے ضرر منفی اثرات کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ اس کی بنا پر بھی ٹی وی کا استعمال ایک سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔ 3. ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا کسی مرد اور عورت کو شوہر بیوی، ماں باپ، بیٹا بیٹی، سالا سالی، |