Maktaba Wahhabi

36 - 79
نقد و نظر سید خالد جامعی، محمد زاہد صدیق مغل ٹی وی اور تبلیغ اسلام میڈیا وار کا فریب یہ مضمون ماہنامہ ’محدث‘ جون ۲۰۰۶ کے خصوصی شمارے براے تصویر نمبر کے تناظر میں تحریر کیا گیا ہے۔ لاہور میں تمام مکاتب ِ فکر: بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث کے جید علماے کرام کے درمیان ایک ’ملی مجلس شرعی ‘ منعقد ہوئی جس کا موضوع تبلیغ اسلام کے لئے جدید میڈیا خصوصاً ٹی وی کا استعمال تھا۔ چونکہ ٹی وی پر تبلیغ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مسئلہ تصویر کی حرمت ہے، لہٰذا مسئلہ تصویر کی شرعی حیثیت ہی اس مجلس کا اصل محور و مرکز تھا۔ گو کہ علماے کرام کی تعبیر و تشریح کے اُسلوب میں فرق تھا، لیکن اس نقطے پر سب کا اتفاق تھا کہ فی زمانہ تبلیغ دین کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ٹی وی پر آنا جائز ہے۔ اس مضمون کا مقصد مسئلہ تصویر پر اختیار کئے گئے موقف کی بجائے علماے کرام کے اس مفروضے کا جائزہ پیش کرنا ہے کہ ’’ٹی وی بس ایک آلہ ہے، کیونکہ آج یہ کافر کے قبضے میں ہے، لہٰذا اس سے شر کا فروغ ہو رہا ہے، لیکن اگر یہ مسلمانوں کے پاس آجائے تو اس سے خیر کے سوتے پھوٹنے لگیں گے۔‘‘ در حقیقت ٹی وی کے بارے میں یہ مفروضہ ایک عامیانہ تجزیے پر مبنی ہے اور اس مضمون میں ہم دکھانے کی کوشش کریں گے کہ نہ صرف یہ کہ ٹی وی کے ذریعے تبلیغ دین کا کام مؤثر طور پر کرنا ممکن نہیں بلکہ یہ اُلٹا نقصان کا باعث ہوتا ہے۔ وماتوفیقی الا باللہ مقصد اور ساخت کا تعلق باہمی سب سے پہلے یہ اُصولی بات سمجھ لینی چاہئے کہ کسی مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر جو طریقہ اختیار کیا جاتا ہے، اس کی ساخت (structure) کا حصولِ مقصد اور اس کے دوام کے ساتھ نہایت گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اَفراد جب کسی شے کے حصول کو اپنا مقصد بنا تے ہیں تو اس کے حصول کے لئے کوئی نہ کوئی انتظامی شکل ضرور اختیار کرتے ہیں اور بہت سی انتظامی شکلوں میں سے وہی شکل زندہ رہ جاتی ہے، جو زیادہ مؤثر اور قابل عمل ہوتی ہے۔ افراد کی خود سے اختیار کردہ مخصوص انتظامی ہیئت ان معنوں میں تو ضروری نہیں ہوتی کہ وہ بذاتِ خود اَصلاً مطلوب تھی ، مگر ان معنوں میں یقینا ضروری ہوتی ہے کہ اس کی بقا سے افراد کے معا شرتی مقاصد قائم رہتے ہیں اور اس کا
Flag Counter