Maktaba Wahhabi

59 - 79
تذکرہ و تبصرہ حافظ حسن مدنی ’ٹی وی اور تبلیغ اسلام‘ … ایک تبصرہ محدث کے ’تصویر نمبر‘ کی اشاعت سے ایک ماہ قبل مؤقرمعاصر جریدہ ’ساحل‘ کراچی میں ’ٹی وی او رتبلیغ اسلام‘ کے حوالے سے ۶صفحات پر محیط چند خیال افروز نگارشات پیش کی گئیں ۔ حال ہی میں ان اَفکار کو ایک مستقل مضمون کی صورت میں محدث میں اشاعت کے لئے ارسال کیا گیا۔ چونکہ مضمون کے مندرجات کافی اہم ہیں اس لئے اس پر تاثر و تبصرہ بھی ہمراہ پیش کیا جارہا ہے۔تبصرہ سے قبل اصل مضمون کا مطالعہ کرلینا مناسب ہوگا۔ زیر نظر مضمون میں ٹی وی کے بارے میں جو شبہات واعتراضات پیش کئے گئے ہیں ، وہ کافی معقول اور وزنی ہیں اور اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ مغربی تہذیب کی اسی کرشمہ سازی کے سبب دینی علم کی صحت کا معیار دلیل و استدلال کی بجائے عوامی مقبولیت کو قرار دیا جانے لگا ہے۔ جبکہ دینی علم تو کجا، کسی بھی علم کے لئے یہ رویہ زہر قاتل سے کم نہیں کہ اس کا معیار عوام کی پسند وناپسند، قبول او رعدمِ قبو ل کو قرار دے لیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس کی کسی بھی شاخ میں علم وتحقیق کے لئے یہ میزان نہ تو متعارف کرائی اورمعتبر سمجھی جاتی ہیکہ عوام اس پیش کردہ نقطہ نظر کے حامی ہیں یا نہیں بلکہ اس سلسلے میں اُس علم کے ماہرین کی رائے ہی معتبر ہوتی ہے۔ مذہب کے ساتھ یہ رویہ مغرب کے ’نظریۂ عوامیت‘ کا شاخسانہ ہے !! ایسا جانبدارانہ رویہ صرف دینی علم کے ہی حصے میں آیا ہے کہ ہر شخص نہ صرف اس میں اپنی رائے دینے میں آزاد سمجھا جاتا ہے بلکہ محض عوامی مقبولیت کی بنا پر وہ اپنی رائے کو منوانے پر بھی اِصرار کرتا دکھائی دیتا ہے۔یہ رویہ اسی وقت اختیار کیا جاتا ہے جب اس علم کے مصادر ومآخذ اور ماہرین سے اعتبار واعتماد اُٹھ جائے اور ان کی بجائے ہر بات کی داخلی معقولیت میں ہی ’میزانِ حق‘ ڈھونڈی جانے لگی۔ آیا کیا دین اسلام اس بدظنی کا متحمل ہوسکتا ہے جس کی حفاظت وبیان کی ذمہ داری خود قرآنِ کریم میں ربّ ِذوالجلال نے اپنے ذمہ لی ہو؟ غرض گذشتہ پانچ
Flag Counter